لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے طفیل نیازی… لوک گیتوں کے ماتھے کا جھومر
اسپیشل فیچر
پنجاب کی لوک گائیکی کا جب بھی تذکرہ کیا جاتا ہے تو طفیل نیازی کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ اس بے مثال فنکار نے لوک گائیکی کے میدان میں اتنا زبردست کام کیا کہ جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہ مشرقی اور مغربی پنجاب میں یکساں طور پر مقبول تھے اور اب تک ان کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ ویسے تو دیگر فنکاروں نے بھی پنجاب کی لوک گائیکی میں بڑا نام پیدا کیا جن میں شوکت علی، عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی اور کئی دیگر گلوکاروں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن جو مقام اور مرتبہ طفیل نیازی کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔طفیل نیازی 1916ء میں جالندھر (بھارت) کے ایک چھوٹے سے گائوں مداریا میں پیدا ہوئے۔ مداریا سکھوں کا گائوں تھا اور صرف ان کا خاندان ہی مسلمان تھا۔ ان کے آبائو اجداد میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو رباب بجاتے تھے اور انہیں ربابی کہا جاتا تھا۔ یہ گوردواروں میں گاتے تھے۔ طفیل نیازی نے اپنے خاندان کی روایات پر عمل کیا اور انہوں نے امرتسر کے قریب ایک گائوں پمبہ کے گوردوارے میں گانا شروع کر دیا۔ یہاںان کے نانا ربابی کی حیثیت سے ملازم تھے۔ انہوں نے پمبہ میں تین سال گزارے اور پھر ان کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ ان کے والد حاجی رحیم بخش انہیں گوئندوال لے گئے۔ یہاں انہوں نے گوشالہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس پارٹی کے ارکان گائے کے تحفظ کا پیغام پہنچانے کیلئے گائوں گائوں جاتے تھے۔ گوئندوال میں طفیل نیازی پہلے راس دھاری (سٹریٹ سنگر) بنے۔ گوئندوال میں طفیل نیازی چار برس رہے۔ یہاں وہ عظیم گویوں کو سنتے تھے۔ سٹریٹ سنگر کے طور پر انہیں بہت پسند کیا گیا۔ پھرانہوںنے ایک نوٹنکی (چلتا پھرتا تھیٹر) کیلئے کام کرنا شروع کردیا۔ یہاں وہ مشہور پنجابی لوک کہانیاں بڑے مسحور کن انداز میں سناتے تھے۔ ان لوک کہانیوں میں ’’ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنوں‘‘ اور پورن بھگت شامل ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد طفیل نیازی پاکستان آ گئے اور ملتان میں رہائش اختیار کرلی۔ یہاں انہوں نے دودھ کی دکان کھول لی۔ چونکہ ان کے پاس موسیقی کے آلات نہیں تھے اس لیے انہوں نے کچھ دیر کیلئے گائیکی ختم کردی۔1949ء میں ملتان کے ایک پولیس انسپکٹر طفیل نیازی کی مدد کو آئے۔ یہ پولیس انسپکٹر طفیل نیازی کو اس وقت سے جانتے تھے جب وہ مشرقی پنجاب میں تھے۔ اس پولیس انسپکٹر نے حکومت سے موسیقی کے آلات حاصل کیے اور طفیل نیازی کیلئے ایک محفل کا اہتمام کیا۔ اس محفل کی بدولت طفیل نیازی کا تعارف ملتان کے لوگوں سے ہوا۔ اس کے بعد طفیل نیازی نے عوام کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طفیل نیازی کے فنی کیریئر کو نئی زندگی اس پولیس انسپکٹر نے دی۔ جلد ہی طفیل نیازی ملتان کے ثقافتی حلقوں میں مقبول ہوگئے۔ پھر انہوں نے ریڈیو پاکستان کیلئے گانا شروع کر دیا۔26 نومبر1964ء کو جب سرکاری ٹی وی کا آغاز ہوا تو طفیل نیازی کو ایک بڑا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ پہلے لوک گلوکار تھے جنہوں نے اس دن سرکاری ٹی وی پر گایا۔ انہوں نے جو پہلا گانا گایا اس نے پورے ملک میں دھوم مچا دی۔ یہ لوک گانا تھا ’’لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے‘‘… یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ طفیل نیازی ذات کے حوالے سے نیازی نہیں تھے۔ یہ نام انہیں اس دور کے سرکاری ٹی وی کے ایم ڈی اسلم اظہر نے دیا تھا۔ طفیل نیازی نے اسلم اظہر کو بتایا تھا کہ حضرت پیر نیاز علی شاہ ان کے پیر تھے۔ اس سے پہلے انہیں طفیل، ماسٹر طفیل، میاں طفیل یا طفیل ملتانی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ طفیل نیازی نے ایک اور کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نے عکس مفتی کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں ’’لوک ورثہ‘‘ کے قیام کیلئے انتھک محنت کی۔1982ء میں ان کی خدمات کے صلے کے طور پر انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔ طفیل نیازی کی لوک گائیکی کلاسیکی روایات کے زیراثر تھی۔ وہ اپنے کلاسیکی رنگ اور ترنم سے بھرپور آواز سے سامعین پر سحر طاری کردیتے تھے۔ پنجابی لاچے اور ریشمی کرتے میں ملبوس یہ گلوکار جب اپنی آواز کا جادو بکھیرتا تھا تو یہ تاثر ذہنوں پر نقش ہو جاتا تھا کہ آرٹ کو زندگی سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کپورتھلہ موسیقی کی روایات کے امین تھے۔ویسے تو طفیل نیازی کے بے شمار لوک گیت ایسے ہیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا لیکن جن گیتوں نے انہیں امر کر دیا ان کا ذکر نیچے کیا جا رہا ہے۔-1لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے-2 ساڈا چڑیاں دا چمبہ وے-3 اکھیاں لگیاں جواب نہ دیندیاں-4 میں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نالطفیل نیازی کی مشرقی پنجاب میں مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بار وہ بھارتی پنجاب کے ایک شہر میں پرفارم کر رہے تھے تو انہیں بھرپور پذیرائی ملی۔ یہاں جب انہوں نے اپنا مشہور زمانہ لوک گیت ’’ساڈا چڑیاں دا چمبہ وے‘‘ گایا تو سامعین کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ بعض خواتین تو روتے روتے بے حال ہوگئیں۔ ان میں نامور شاعرہ اور ادیب امریتا پریتم بھی شامل تھیں۔ 1998ء میں جب بھارت کی معروف لوک گلوکارہ سریندر کور پاکستان آئیں تو ان کا بڑا شاندار استقبال کیا گیا۔ انہوں نے ان محفلوں میں عنایت حسین بھٹی، شوکت علی اور حسین بخش گلو کا ایک محفل میں خاص طور پر ذکرکیا۔ ایک اور محفل میں شوکت علی اور حسین بخش گلو بھی موجود تھے۔ اس محفل میں سریندر کور سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں پنجاب کا عظیم ترین لوک گلوکار کون ہے تو انہوں نے بلاتامل طفیل نیازی کا نام لیا اور یہ بھی کہا کہ طفیل نیازی جیسا لوک گلوکار اب شاید پنجاب کو نہ ملے۔حیران کن بات یہ ہے کہ طفیل نیازی نے فلمی گائیکی کی طرف توجہ نہیں دی، اگر وہ اس میدان میں آتے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ ناقابل فراموش پنجابی نغمات گاتے۔ معروف گلوکار مسعود رانا نے ایک بار کہا تھا کہ طفیل نیازی کو فلمی گیت گانے چاہئیں تھے لیکن نہ جانے کیوں وہ فلمی گائیکی سے گریز کرتے رہے… کچھ حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ طفیل نیازی کو کئی لوگوں نے فلمی گیت گانے سے اس لیے منع کیا کہ ان کا اس میدان میں کامیاب ہونا مشکل ہے اور انہیں اپنی شناخت لوک گلوکار کی حیثیت سے ہی منوانی چاہیے۔ حالانکہ عنایت حسین بھٹی اور شوکت علی نے کئی فلمی گیت گائے اور ان کے گائے ہوئے اکثر گیت بہت مقبول ہوئے بلکہ آج تک اپنی شہرت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ طفیل نیازی نے اپنے کئی ہم عصروں کے برعکس آرام دہ زندگی گزاری۔ ان کے بیٹوں جاوید نیازی اوربابر نیازی نے اپنے باپ کی روایت کو آگے بڑھایا اور وہ سرکاری ٹی وی پر باقاعدگی سے گاتے رہے۔21 ستمبر 1990ء کو پنجاب کے اس عظیم لوک گلوکار کا انتقال ہوگیا۔ وہ اسلام آباد کے قریب آسودئہ خاک ہیں۔2011ء کو پی این سی اے کے زیراہتمام شام موسیقی کا انعقاد کیا گیا جس میں طفیل نیازی کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ ایسے فنکار روز روز کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ٭…٭…٭