امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ خوش گوار یادیں , دلچسپ واقعات
اسپیشل فیچر
میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے تحریک آزادی کے عظیم رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی رفاقت میسر آئی۔ میں مدرسہ قاسم العلوم ،ملتان میں زیر تعلیم تھا اور شاہ جی کا گھر مدرسہ کے قریب۔ تعلیمی مصروفیت کے بعد جو وقت بچتا ،میں اُن کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔ میرا زیادہ وقت شاہ جی کی مجلس علم و عرفان میں ہی گزرتا۔ اُن کی مجلس میں عام لوگ بھی ہوتے اور بڑی شخصیات بھی، لیکن وہ سب کو محبت سے ملتے اور احترام دیتے۔ مجھ جیسے ایک طالب علم کو بھی ان کی بے پناہ شفقت و مہربانی میسر آگئی تھی۔ شاہ جی کو ہم سے جدا ہوئے پچاس برس بیت چکے، مگر اُن کی یاد یں اُن کی باتیں اور بعض واقعات آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ ۹؍ مئی ۱۹۵۸ء کو سابق صدر سکندر مرزا، ملتان آئے۔ ان کی خواہش تھی کہ شاہ جی انہیں گیلانیوں کی دعوت پر ملیں۔ انہوں نے مظفر علی شمسی کو شاہ جی کی خدمت میں بھیجا۔ مظفر علی شمسی نے جب اپنی آمد کا مدعا بیان کیا، تو شاہ جی نے کہا: شمسی! میں تمہارے کہے پر عمل نہیں کر سکتا۔ اگر مرزا صاحب میرے جھونپڑے پر آ جائیں ،تو وہ بھی بلند ہو جائیں گے اور میں بھی۔ لوگ کہیں گے صدر مملکت ایک درویش کی کٹیا میں گیا۔ اگر میں انہیں ملنے جائوں ،تو اپنی عمر بھر کی کمائی برباد کر بیٹھوں گا، پھر مجھے اُن سے کوئی کام نہیں، انہیں کام ہے تو خود آجائیں۔ شمسی صاحب اپنا سا منہ لے کر چلے گئے اور سکندر مرزا کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ شاہ جی نے امرتسر میں دو مکان چھوڑے تھے۔ جب پاکستان آئے، تو عقیدت مندوں نے اصرار کیا کہ متروکہ مکانوں کی الاٹمنٹ کے لیے درخواست دیں، مگر شاہ جی نے کہا: بھائی! عمر بھر میں نے مالک حقیق کے سوا کسی کے سامنے فدوی بن کر درخواست نہیں گزاری، اب کون سی ایسی ضرورت ہے کہ اپنے مالک سے منہ موڑ لوں۔ چنانچہ آپ نے کرائے کے ایک تین کمروں کے مکان میں اپنی بقیہ عمر گزاری۔ ایک روز آپ کے ایک عزیز ترین عقیدت مند سلیم اللہ خان راشن کارڈ کا فارم لے آئے۔ سلیم اللہ خان (مرحوم) نے جب آمدنی کی بابت پوچھا تو آپ نے مسکرا کر یوں کہا :کبھی دھن دھنا، کبھی مٹھی بنا، کبھی یہ بھی منع، آپ کا ذریعہ معاش فقط ذات باری پر توکل تھا۔ آپ نے کبھی کسی عقیدت مند کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا اور کبھی کسی مقروض کا ہدیہ قبول نہیں کیا۔ ایک دفعہ ایک فقیر نے دروازے پر صدا دی۔ شاہ جی نماز کے بعد دعا مانگ رہے تھے۔ اپنے رب حقیقی سے مخاطب ہو کر کہا :میں تیرا سائل ہوں اور یہ تیرے بندوں کا سائل ہے۔ جیل کے واقعات یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ کو دیناج پور جیل بھیج دیا گیا۔ آپ کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد اور جمعیت العلمائے ہند کے چند رہنما بھی تھے۔ جیل کے دروازے پر وارڈر نے تلاشی لینی شروع کر دی۔ جیل میں سیاسی قیدیوں کے لیے روپے لے جانا سخت منع تھا۔ جن لیڈروں کے پاس رقم تھی انہوں نے واپس کر دی۔ شاہ جی کے پاس بھی ۶۲ روپے کی رقم تھی۔ انہیں جیل میں رقم کی اہمیت کا علم تھا۔ اس لیے ہر قیمت پر یہ روپے اندر لے جانا چاہتے تھے۔ ساتھیوں نے منع کیا، مگر آپ باز نہ آئے۔ آخر تلاشی کرتے کرتے ان کی باری بھی آ گئی۔ انہوں نے بڑے رومال کے پہلو میں روپے باندھ رکھے تھے۔ وارڈرکے دیکھتے دیکھتے انہوں نے رومال اگلے قیدی کے کندھے پر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ تلاشی دینے کے لیے بلند کر دئیے۔ اس طرح یہ ۶۲روپے جیل میں پہنچ گئے۔ شاہ جی نے اس رقم سے سگریٹ خرید کر ان سیاسی قیدیوں میں تقسیم کر دئیے، جو محض سگریٹ نہ ملنے کے باعث معافی مانگ کر رہا ہو جاتے۔ اسی جیل کا واقعہ ہے۔ ایک روز مولانا آزاد نے بڑے اہتمام سے چائے بنائی اور شاہ جی کو پیش کی۔ شاہ جی نے چائے پی لی اور چپ ہو رہے۔ شاہ جی کو خاموش دیکھ کر انہوں نے خود کہا: میرے بھائی! چائے کیسی رہی؟ شاہ جی بولے کہ ایک چیز کی کمی تھی۔ مولانا آزاد کا ماتھا ٹھنکا اور چہرے پر شکنیں آ گئیں۔ فرمانے لگے: وہ کیا میرے بھائی؟ شاہ جی نے کہا: اس میں زعفران نہیں ۔ مولانا نے اطمینان کا سانس لیا اور فرمایا: ہاں میرے بھائی! پھر وعدہ کیا کہ اگلے روز مزعفر چائے پلائیں گے۔ دوسرے روز زعفران سے معطر چائے تیار تھی، مگر عین اس وقت سپرنٹنڈنٹ دور سے آتا دکھائی دیا۔ مولانا بڑے گھبرائے کیونکہ جیل کے ضوابط کے مطابق دو طرح سے مجرم تھے ایک یہ کہ انہیں مولانا کے پاس آنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ وارڈر کو جل دے کر ان تک پہنچے تھے۔ دوم یہ کہ چائے کا لطف اٹھایا جا رہا تھا۔ آخر مولانا اٹھے اور دور جا کرسپرنٹنڈنٹ کا نہایت خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ سپرنٹنڈنٹ کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ وہ پھولا نہ سمایا اور مولانا سے باتیں کرتا ہوا دوسری جانب چلا گیا۔ ادھر شاہ جی مزے سے چائے پیتے رہے۔شاعروں، ادیبوں سے تعلقشاعروں اور ادیبوں سے آپ کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ سخن فہمی کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ اس لیے شعرا آپ کو اپنا کلام سنانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ہم عصر شاعروں میں سے آپ کو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر سے خاص انس تھا۔ آپ ہمیشہ ان کی غیر ملکی بیوی کو بیٹی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ بیگم تاثیر آپ کا بڑا احترام کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ آپ کو تعجب ہونے لگا۔ ایک دن اپنے اسی تعجب کا اظہار ڈاکٹر تاثیر سے کیا تو ثاثیر نے جواب دیا: شاہ جی یہ جس ملک کی رہنے والی ہے، وہاں بہو بیٹی کا سا مقام نہیں دیا جاتا۔ ایک دفعہ معروف شاعر سید عبدالحمید عدم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کافی دیر تک عدم کا کلام سنتے اور داد دیتے رہے۔ عدم کے جانے کے بعدحاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ ’’شاہ جی! عدم ؔشراب پیتا ہے‘‘ آپ کے چہرے پر رنج سے شکنیں ابھر آئیں اور کبیدہ خاطر ہو گئے۔ آپ نے کہا :تم نے اپنی آنکھوں سے اسے شراب پیتے دیکھا؟ کہنے لگا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو پھر سُنی سُنائی بات کیوں کرتے ہو؟ ایک صاحب کہنے لگے کہ میں نے دیکھا ہے۔ اس پر آپ نے کہا : تو پھر خاموش رہو، در گزر اور چشم پوشی ربانی صفت ہے ،اس لیے تم بھی چشم پوشی سے کام لیا کرو۔ ایک تاریخی جلسہمراد آباد میں سائمن کمیشن کی رپورٹ کے خلاف جلسہ تھا، جس میں شاہ جی کے علاوہ جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو، سید محمود اور دیگر معزز لیڈر شامل تھے۔ شاہ جی نے محسوس کیاکہ جو کچھ مجھے کہنا تھا یہ حضرات کہہ چکے ہیں۔ زندگی میں پہلی بار شاہ جی کو پریشانی کا احساس ہونے لگا کہ آخر وہ کھڑے ہو کر کیا کہیں گے۔ اب سوائے اس کے چارہ کار کیا تھا کہ وہ اپنی تقریر کو ان جملوں کے ساتھ ختم کر دیں ’’ حاضرین اس موضوع پر میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ مجھ سے پہلے کہا جا چکا ہے۔ لہٰذا میں شکریے کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں‘‘ مگر یہ تو اظہارِ شکست تھا۔ آخر بادل نخواستہ شاہ جی مائیک کا سہارا لے کر اٹھے۔ جب کھڑے ہوئے تو دیکھا سامنے کچھ لوگ سائمن کا علامتی جنازہ اٹھائے کھڑے ہیں اور سائمن کمیشن مردہ باد کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ شاہ جی کی زبان سے غالب کا یہ شعر بے ساختہ نکلا: ہوئے مر کے تم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا شعر کہنا تھا کہ حاضرین پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کافی دیر تک وا واہ کا شور بلند ہوتا رہا۔ یہ شعر لوگوں نے کئی بار سنا ہو گا، مگر بخاری صاحب کی زبان میں کچھ اور ہی رس تھا۔ یہ حالت دیکھ کر موتی لال نہرو پکار اٹھے ۔ ارے ارے ارے! شاہ جی غضب کے آدمی ہو، کیا ہو گیا، لوگوں کو؟ احتسابِ ذاتانہی دنوں کا واقعہ ہے کہ حکیم محمد حنیف اللہ (مرحوم) کے مطب میں بیٹھے تھے کہ اچانک خود کلامی کرتے ہوئے اپنی ذات پر تنقید شروع کر دی۔ کچھ ایسے ہی جملے تھے: ’’تم نے کیا تقریر کی…تمہیں آتا کیا ہے … لوگ تمہیں سننے آئے تھے کیا… تمہاری حیثیت کیا ہے؟ … اللہ نے تم سے تقریر کرائی … لوگ تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی باتیں سننے آئے تھے۔ جب خاموش ہوئے، تو میں نے عرض کیا کہ آپ کس سے مخاطب تھے؟ فرمانے لگے کچھ نہیں! دہلی کا ایک جلسہ یاد آ گیا تھا۔ میری تقریر سننے کے لیے لاکھوں لوگ جمع تھے۔زندہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ بس یہ خیال آیا ہی تھا اور میں استغفار میں مشغول ہو گیا۔ میں تو اپنا احتساب کر رہا تھا کہ وہ تقریر اللہ نے مجھ سے کرائی، لوگوں کو اللہ نے جلسہ میں بھیجا، میری کیا اوقات ہے، یہ تھا شاہ جی کا جذبۂ ایمانی اور احتسابِ ذات۔ جذبۂ ایمانیجنرل محمد ایوب خان اقتدار کے سنگھاسن پر نئے نئے قابض وبراجمان ہوئے تھے۔ان کے مارشل لاء کا بڑا رعب و دبدبہ تھا ۔ایک روز شاہ جی ، سلیمی دواخانہ (کچہری روڈ)تک جانے کے لیے گھر سے چلے، تو میں بھی اُن کے ساتھ تھا ۔راستے میں چلتے چلتے میں نے ملکی سیاسی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض حکومتی اقدامات کی تعریف شروع کردی۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ حضرت شاہ جی اپنی لاٹھی پر دونوں ہاتھ رکھ کر وہیں رک گئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے :’’مولوی یٰسین!تمہیں تو معلوم ہے کہ حدیث شریف میں نبی کریم ا نے ایمان کے تین درجے ارشاد فرمائے ہیں:(۱)منکرات کو ہاتھ کی طاقت سے روکو ،اس پر اختیار نہ ہو تو …(۲)زبان سے روکو ،اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو …(۳)دل میں برا سمجھواور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔یادر رکھو!جس دن ہمارے دلو ں میں حکمرانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگیا اور حکمران ہم سے مطمئن ہوگئے، وہ ہمارے ایمان کی جاں کنی کا آخری دن ہوگا ۔حکمرانوں کا ہمارے درپئے آزار رہنا ہی ہمارے ایمان کی علامت ہے‘‘۔مصائب میں صبربیماریوں کے ہجوم اور مصائب کی یلغار میں اس کوہِ استقامت کے معتقدات میں ادنیٰ لغزش بھی رو نما نہ ہوئی، ہر مزاج پرسی کرنے والے کو خندہ پیشانی سے الحمدللہ کہہ کر جواب دیتے۔ فرماتے : ہاں بھائی !الحمدللہ نہ کہوں تو او ر کیا کہوں؟۔ اس سے بد تر حالت بھی تو ہو سکتی ہے اور میں تو اُدھر سے شر کا قائل ہی نہیں ہوں، کوئی اللہ تعالیٰ ہمارے دشمن یا شریک ہیں جو ہمیں شر اور ایذا پہنچائیں، اُدھر تو خیر ہی خیر ہے، صرف ہمارا استعمال بعض چیزوں کو شر بنا دیتا ہے وہاں تو خیر ہی خیر ہے، وہ جو کچھ ہمارے لیے کرتے ہیں بہتر ہوتا ہے اگرچہ وہ ہمارے فہم سے بالاتر کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد ایک مجذوب کا واقعہ ارشاد فرمایا کہ ان کی خدمت میں ایک رئیس حاضر ہوا ،اس نے عرض کیا :حضرت کچھ پریشانیاں ہیں دعا کرو۔ حضرت مجذوب نے فرمایا :یہی پریشانیاں کہ خدا آپ کی بات نہیں مانتا، یعنی جو کچھ آپ چاہتے ہیں وہ نہیں ہوتا، تو آپ اس کی بات مان لیجئے، وہ اس کے زیادہ لائق ہے، پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بھائی اس کے سوا چارہ نہیں۔ الحمدللہ کہنے ہی میں خیر ہے۔ مجھے شاہ جی کی رفاقت میں جتنے دن بھی میسر آئے، وہ میری زندگی کا سرمایۂ عزیز ہیں۔ میرے فکر و عقیدہ کی اصلاح ہوئی، اعمال درست ہوئے، لکھنے پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ سیکھا اور شعر و ادب سے مناسبت پیدا ہوئی۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ۲۱؍ اگست ۱۹۶۱ء کو ان کے انتقال کے بعد تجہیز و تکفین کے تمام مراحل میں شریک رہا۔ شاہ جی زندہ تھے، تو لاکھوں کے مجمع سے خطاب فرماتے۔ انتقال ہوا ،تو لاکھوں مسلمان اُن کی نمازِ جنازہ میں شریک تھے۔ اُنہوں نے فقیرانہ زندگی میں لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کوہم سے جدا ہوئے نصف صدی ہو گئی لیکن لوگوں کے دلوں میں اُن کا احترام آج بھی موجود ہے۔٭…٭…٭