امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ خوش گوار یادیں , دلچسپ واقعات

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ  خوش گوار یادیں , دلچسپ واقعات

اسپیشل فیچر

تحریر :


میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے تحریک آزادی کے عظیم رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی رفاقت میسر آئی۔ میں مدرسہ قاسم العلوم ،ملتان میں زیر تعلیم تھا اور شاہ جی کا گھر مدرسہ کے قریب۔ تعلیمی مصروفیت کے بعد جو وقت بچتا ،میں اُن کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔ میرا زیادہ وقت شاہ جی کی مجلس علم و عرفان میں ہی گزرتا۔ اُن کی مجلس میں عام لوگ بھی ہوتے اور بڑی شخصیات بھی، لیکن وہ سب کو محبت سے ملتے اور احترام دیتے۔ مجھ جیسے ایک طالب علم کو بھی ان کی بے پناہ شفقت و مہربانی میسر آگئی تھی۔ شاہ جی کو ہم سے جدا ہوئے پچاس برس بیت چکے، مگر اُن کی یاد یں اُن کی باتیں اور بعض واقعات آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ ۹؍ مئی ۱۹۵۸ء کو سابق صدر سکندر مرزا، ملتان آئے۔ ان کی خواہش تھی کہ شاہ جی انہیں گیلانیوں کی دعوت پر ملیں۔ انہوں نے مظفر علی شمسی کو شاہ جی کی خدمت میں بھیجا۔ مظفر علی شمسی نے جب اپنی آمد کا مدعا بیان کیا، تو شاہ جی نے کہا: شمسی! میں تمہارے کہے پر عمل نہیں کر سکتا۔ اگر مرزا صاحب میرے جھونپڑے پر آ جائیں ،تو وہ بھی بلند ہو جائیں گے اور میں بھی۔ لوگ کہیں گے صدر مملکت ایک درویش کی کٹیا میں گیا۔ اگر میں انہیں ملنے جائوں ،تو اپنی عمر بھر کی کمائی برباد کر بیٹھوں گا، پھر مجھے اُن سے کوئی کام نہیں، انہیں کام ہے تو خود آجائیں۔ شمسی صاحب اپنا سا منہ لے کر چلے گئے اور سکندر مرزا کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ شاہ جی نے امرتسر میں دو مکان چھوڑے تھے۔ جب پاکستان آئے، تو عقیدت مندوں نے اصرار کیا کہ متروکہ مکانوں کی الاٹمنٹ کے لیے درخواست دیں، مگر شاہ جی نے کہا: بھائی! عمر بھر میں نے مالک حقیق کے سوا کسی کے سامنے فدوی بن کر درخواست نہیں گزاری، اب کون سی ایسی ضرورت ہے کہ اپنے مالک سے منہ موڑ لوں۔ چنانچہ آپ نے کرائے کے ایک تین کمروں کے مکان میں اپنی بقیہ عمر گزاری۔ ایک روز آپ کے ایک عزیز ترین عقیدت مند سلیم اللہ خان راشن کارڈ کا فارم لے آئے۔ سلیم اللہ خان (مرحوم) نے جب آمدنی کی بابت پوچھا تو آپ نے مسکرا کر یوں کہا :کبھی دھن دھنا، کبھی مٹھی بنا، کبھی یہ بھی منع، آپ کا ذریعہ معاش فقط ذات باری پر توکل تھا۔ آپ نے کبھی کسی عقیدت مند کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا اور کبھی کسی مقروض کا ہدیہ قبول نہیں کیا۔ ایک دفعہ ایک فقیر نے دروازے پر صدا دی۔ شاہ جی نماز کے بعد دعا مانگ رہے تھے۔ اپنے رب حقیقی سے مخاطب ہو کر کہا :میں تیرا سائل ہوں اور یہ تیرے بندوں کا سائل ہے۔ جیل کے واقعات یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ کو دیناج پور جیل بھیج دیا گیا۔ آپ کے ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد اور جمعیت العلمائے ہند کے چند رہنما بھی تھے۔ جیل کے دروازے پر وارڈر نے تلاشی لینی شروع کر دی۔ جیل میں سیاسی قیدیوں کے لیے روپے لے جانا سخت منع تھا۔ جن لیڈروں کے پاس رقم تھی انہوں نے واپس کر دی۔ شاہ جی کے پاس بھی ۶۲ روپے کی رقم تھی۔ انہیں جیل میں رقم کی اہمیت کا علم تھا۔ اس لیے ہر قیمت پر یہ روپے اندر لے جانا چاہتے تھے۔ ساتھیوں نے منع کیا، مگر آپ باز نہ آئے۔ آخر تلاشی کرتے کرتے ان کی باری بھی آ گئی۔ انہوں نے بڑے رومال کے پہلو میں روپے باندھ رکھے تھے۔ وارڈرکے دیکھتے دیکھتے انہوں نے رومال اگلے قیدی کے کندھے پر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ تلاشی دینے کے لیے بلند کر دئیے۔ اس طرح یہ ۶۲روپے جیل میں پہنچ گئے۔ شاہ جی نے اس رقم سے سگریٹ خرید کر ان سیاسی قیدیوں میں تقسیم کر دئیے، جو محض سگریٹ نہ ملنے کے باعث معافی مانگ کر رہا ہو جاتے۔ اسی جیل کا واقعہ ہے۔ ایک روز مولانا آزاد نے بڑے اہتمام سے چائے بنائی اور شاہ جی کو پیش کی۔ شاہ جی نے چائے پی لی اور چپ ہو رہے۔ شاہ جی کو خاموش دیکھ کر انہوں نے خود کہا: میرے بھائی! چائے کیسی رہی؟ شاہ جی بولے کہ ایک چیز کی کمی تھی۔ مولانا آزاد کا ماتھا ٹھنکا اور چہرے پر شکنیں آ گئیں۔ فرمانے لگے: وہ کیا میرے بھائی؟ شاہ جی نے کہا: اس میں زعفران نہیں ۔ مولانا نے اطمینان کا سانس لیا اور فرمایا: ہاں میرے بھائی! پھر وعدہ کیا کہ اگلے روز مزعفر چائے پلائیں گے۔ دوسرے روز زعفران سے معطر چائے تیار تھی، مگر عین اس وقت سپرنٹنڈنٹ دور سے آتا دکھائی دیا۔ مولانا بڑے گھبرائے کیونکہ جیل کے ضوابط کے مطابق دو طرح سے مجرم تھے ایک یہ کہ انہیں مولانا کے پاس آنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ وارڈر کو جل دے کر ان تک پہنچے تھے۔ دوم یہ کہ چائے کا لطف اٹھایا جا رہا تھا۔ آخر مولانا اٹھے اور دور جا کرسپرنٹنڈنٹ کا نہایت خندہ پیشانی سے استقبال کیا۔ سپرنٹنڈنٹ کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ وہ پھولا نہ سمایا اور مولانا سے باتیں کرتا ہوا دوسری جانب چلا گیا۔ ادھر شاہ جی مزے سے چائے پیتے رہے۔شاعروں، ادیبوں سے تعلقشاعروں اور ادیبوں سے آپ کے تعلقات بہت گہرے تھے۔ سخن فہمی کا ذوق بہت اعلیٰ تھا۔ اس لیے شعرا آپ کو اپنا کلام سنانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ہم عصر شاعروں میں سے آپ کو ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر سے خاص انس تھا۔ آپ ہمیشہ ان کی غیر ملکی بیوی کو بیٹی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ بیگم تاثیر آپ کا بڑا احترام کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ آپ کو تعجب ہونے لگا۔ ایک دن اپنے اسی تعجب کا اظہار ڈاکٹر تاثیر سے کیا تو ثاثیر نے جواب دیا: شاہ جی یہ جس ملک کی رہنے والی ہے، وہاں بہو بیٹی کا سا مقام نہیں دیا جاتا۔ ایک دفعہ معروف شاعر سید عبدالحمید عدم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کافی دیر تک عدم کا کلام سنتے اور داد دیتے رہے۔ عدم کے جانے کے بعدحاضرین مجلس میں سے کسی نے کہا کہ ’’شاہ جی! عدم ؔشراب پیتا ہے‘‘ آپ کے چہرے پر رنج سے شکنیں ابھر آئیں اور کبیدہ خاطر ہو گئے۔ آپ نے کہا :تم نے اپنی آنکھوں سے اسے شراب پیتے دیکھا؟ کہنے لگا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو پھر سُنی سُنائی بات کیوں کرتے ہو؟ ایک صاحب کہنے لگے کہ میں نے دیکھا ہے۔ اس پر آپ نے کہا : تو پھر خاموش رہو، در گزر اور چشم پوشی ربانی صفت ہے ،اس لیے تم بھی چشم پوشی سے کام لیا کرو۔ ایک تاریخی جلسہمراد آباد میں سائمن کمیشن کی رپورٹ کے خلاف جلسہ تھا، جس میں شاہ جی کے علاوہ جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو، سید محمود اور دیگر معزز لیڈر شامل تھے۔ شاہ جی نے محسوس کیاکہ جو کچھ مجھے کہنا تھا یہ حضرات کہہ چکے ہیں۔ زندگی میں پہلی بار شاہ جی کو پریشانی کا احساس ہونے لگا کہ آخر وہ کھڑے ہو کر کیا کہیں گے۔ اب سوائے اس کے چارہ کار کیا تھا کہ وہ اپنی تقریر کو ان جملوں کے ساتھ ختم کر دیں ’’ حاضرین اس موضوع پر میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ مجھ سے پہلے کہا جا چکا ہے۔ لہٰذا میں شکریے کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں‘‘ مگر یہ تو اظہارِ شکست تھا۔ آخر بادل نخواستہ شاہ جی مائیک کا سہارا لے کر اٹھے۔ جب کھڑے ہوئے تو دیکھا سامنے کچھ لوگ سائمن کا علامتی جنازہ اٹھائے کھڑے ہیں اور سائمن کمیشن مردہ باد کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ شاہ جی کی زبان سے غالب کا یہ شعر بے ساختہ نکلا: ہوئے مر کے تم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا شعر کہنا تھا کہ حاضرین پر جذب کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کافی دیر تک وا واہ کا شور بلند ہوتا رہا۔ یہ شعر لوگوں نے کئی بار سنا ہو گا، مگر بخاری صاحب کی زبان میں کچھ اور ہی رس تھا۔ یہ حالت دیکھ کر موتی لال نہرو پکار اٹھے ۔ ارے ارے ارے! شاہ جی غضب کے آدمی ہو، کیا ہو گیا، لوگوں کو؟ احتسابِ ذاتانہی دنوں کا واقعہ ہے کہ حکیم محمد حنیف اللہ (مرحوم) کے مطب میں بیٹھے تھے کہ اچانک خود کلامی کرتے ہوئے اپنی ذات پر تنقید شروع کر دی۔ کچھ ایسے ہی جملے تھے: ’’تم نے کیا تقریر کی…تمہیں آتا کیا ہے … لوگ تمہیں سننے آئے تھے کیا… تمہاری حیثیت کیا ہے؟ … اللہ نے تم سے تقریر کرائی … لوگ تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی باتیں سننے آئے تھے۔ جب خاموش ہوئے، تو میں نے عرض کیا کہ آپ کس سے مخاطب تھے؟ فرمانے لگے کچھ نہیں! دہلی کا ایک جلسہ یاد آ گیا تھا۔ میری تقریر سننے کے لیے لاکھوں لوگ جمع تھے۔زندہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ بس یہ خیال آیا ہی تھا اور میں استغفار میں مشغول ہو گیا۔ میں تو اپنا احتساب کر رہا تھا کہ وہ تقریر اللہ نے مجھ سے کرائی، لوگوں کو اللہ نے جلسہ میں بھیجا، میری کیا اوقات ہے، یہ تھا شاہ جی کا جذبۂ ایمانی اور احتسابِ ذات۔ جذبۂ ایمانیجنرل محمد ایوب خان اقتدار کے سنگھاسن پر نئے نئے قابض وبراجمان ہوئے تھے۔ان کے مارشل لاء کا بڑا رعب و دبدبہ تھا ۔ایک روز شاہ جی ، سلیمی دواخانہ (کچہری روڈ)تک جانے کے لیے گھر سے چلے، تو میں بھی اُن کے ساتھ تھا ۔راستے میں چلتے چلتے میں نے ملکی سیاسی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض حکومتی اقدامات کی تعریف شروع کردی۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ حضرت شاہ جی اپنی لاٹھی پر دونوں ہاتھ رکھ کر وہیں رک گئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے :’’مولوی یٰسین!تمہیں تو معلوم ہے کہ حدیث شریف میں نبی کریم ا نے ایمان کے تین درجے ارشاد فرمائے ہیں:(۱)منکرات کو ہاتھ کی طاقت سے روکو ،اس پر اختیار نہ ہو تو …(۲)زبان سے روکو ،اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو …(۳)دل میں برا سمجھواور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔یادر رکھو!جس دن ہمارے دلو ں میں حکمرانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگیا اور حکمران ہم سے مطمئن ہوگئے، وہ ہمارے ایمان کی جاں کنی کا آخری دن ہوگا ۔حکمرانوں کا ہمارے درپئے آزار رہنا ہی ہمارے ایمان کی علامت ہے‘‘۔مصائب میں صبربیماریوں کے ہجوم اور مصائب کی یلغار میں اس کوہِ استقامت کے معتقدات میں ادنیٰ لغزش بھی رو نما نہ ہوئی، ہر مزاج پرسی کرنے والے کو خندہ پیشانی سے الحمدللہ کہہ کر جواب دیتے۔ فرماتے : ہاں بھائی !الحمدللہ نہ کہوں تو او ر کیا کہوں؟۔ اس سے بد تر حالت بھی تو ہو سکتی ہے اور میں تو اُدھر سے شر کا قائل ہی نہیں ہوں، کوئی اللہ تعالیٰ ہمارے دشمن یا شریک ہیں جو ہمیں شر اور ایذا پہنچائیں، اُدھر تو خیر ہی خیر ہے، صرف ہمارا استعمال بعض چیزوں کو شر بنا دیتا ہے وہاں تو خیر ہی خیر ہے، وہ جو کچھ ہمارے لیے کرتے ہیں بہتر ہوتا ہے اگرچہ وہ ہمارے فہم سے بالاتر کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد ایک مجذوب کا واقعہ ارشاد فرمایا کہ ان کی خدمت میں ایک رئیس حاضر ہوا ،اس نے عرض کیا :حضرت کچھ پریشانیاں ہیں دعا کرو۔ حضرت مجذوب نے فرمایا :یہی پریشانیاں کہ خدا آپ کی بات نہیں مانتا، یعنی جو کچھ آپ چاہتے ہیں وہ نہیں ہوتا، تو آپ اس کی بات مان لیجئے، وہ اس کے زیادہ لائق ہے، پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بھائی اس کے سوا چارہ نہیں۔ الحمدللہ کہنے ہی میں خیر ہے۔ مجھے شاہ جی کی رفاقت میں جتنے دن بھی میسر آئے، وہ میری زندگی کا سرمایۂ عزیز ہیں۔ میرے فکر و عقیدہ کی اصلاح ہوئی، اعمال درست ہوئے، لکھنے پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ سیکھا اور شعر و ادب سے مناسبت پیدا ہوئی۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ۲۱؍ اگست ۱۹۶۱ء کو ان کے انتقال کے بعد تجہیز و تکفین کے تمام مراحل میں شریک رہا۔ شاہ جی زندہ تھے، تو لاکھوں کے مجمع سے خطاب فرماتے۔ انتقال ہوا ،تو لاکھوں مسلمان اُن کی نمازِ جنازہ میں شریک تھے۔ اُنہوں نے فقیرانہ زندگی میں لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کوہم سے جدا ہوئے نصف صدی ہو گئی لیکن لوگوں کے دلوں میں اُن کا احترام آج بھی موجود ہے۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

مصر کی قدیم یادگار کی بحالی

عظیم الجثہ مجسمے قدیم مصری فن تعمیر کی عکاسی کرتے ہیںمصر نے حال ہی میں اپنی قدیم تہذیب کی ایک نہایت اہم یادگار کی بحالی کا کام مکمل کیا ہے۔ یہ یادگار فرعون امنحوتپ (Amenhotep) سوم کے عظیم الجثہ مجسموں پر مشتمل ہے، جو ان کی شان و شوکت اور قدیم مصری فن تعمیر کی اعلیٰ مہارت کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط مٹی اور موسمی اثرات کے بعد یہ مجسمے اب دوبارہ اپنی اصل صورت میں عوام کے سامنے پیش کیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف مصر کی تاریخی وراثت زندہ ہوئی ہے بلکہ عالمی ثقافتی منظرنامے میں بھی اس کا مقام مستحکم ہوا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ بحالی منصوبہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ سیاحتی شعبے کو فروغ دینے اور قدیم مصر کے فن تعمیر کی یادگار کو محفوظ رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔زلزلے سے متاثر ہونے کے تین ہزار سال سے زائد عرصہ بعد، مصر کے دو شاندار اور دلکش آثار قدیمہ کو دوبارہ خوبصورتی کے ساتھ بحال کر دیا گیا ہے۔ میمنون کے عظیم مجسمے دریائے نیل کے اس کنارے پر واقع ہیں جو قدیم شہر لقصور (Luxor) کے سامنے ہے، جو مصر کا تاریخی شہر ہے۔ یہ دونوں عظیم الجثہ مجسمے تقریباً 50 فٹ بلند ہیں اور یہ امنحوتپ سوم کی نمائندگی کرتے ہیں، جو قدیم مصر پر 1391 تا 1353 قبل مسیح تک حکمرانی کرنے والا طاقتور فرعون تھا۔چند روز قبل حکام نے ان مرمت شدہ مجسموں پر سے پردہ اٹھایا، جنہیں مصر کی تہذیب کی سب سے اہم یادگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ مجسمے دوبارہ بحال کر کے اپنی اصل جگہ پر نصب کیے گئے ہیں۔ امنحوتپ سوم کو قدیم مصر پوجا جاتا تھا اور وہ توت عنخ آمون کے دادا تھے۔آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل ہیبِچٹ (Michael Habicht)کے مطابق انہوں نے امن کو فروغ دیا اور اقتصادی خوشحالی کے عظیم دور میں زندگی گزاری۔ممکن ہے کہ وہ اپنے دور میں دنیا کے سب سے امیر افراد میں شامل ہوں‘‘۔میمنون کے عظیم مجسمے اصل میں 1350 قبل مسیح میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مجسمے بڑے پتھریلے بلاکس سے بنائے گئے، جو موجودہ قاہرہ کے قریب کانوں سے نکالے گئے اور تقریباً 420 میل کا طویل فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچائے گئے۔دونوں مجسموں میں فرعون امنحو تپ سوم کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن کے ہاتھ رانوں پر رکھے ہیں، جبکہ ان کے چہرے مشرق کی سمت دریائے نیل اور طلوعِ آفتاب کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ان کے سر پر دھاری دارشاہی تاج ہے جبکہ انہوں نے شاہی لباس پہن رکھا ہے، جو فرعون کی حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔فرعون کے پیروں کے پاس موجود دو چھوٹے مجسمے ان کی اہلیہ ملکہ تِیے کی نمائندگی کرتے ہیں، جبکہ ان عظیم مجسموں پر یونانی اور لاطینی زبانوں میں کندہ ایک سو سے زائد تحریریں موجود ہیں۔تقریباً 1200 قبل مسیح میں ایک شدید زلزلے نے ان مجسموں کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں امنحوتپ سوم کا مندر بھی تباہ ہو گیا۔ زلزلے کے بعد یہ مجسمے ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان کے چبوترے بکھر گئے، جبکہ بعض پتھریلے حصے نکال کر لے جائے گئے۔ آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق ان کے کچھ بلاکس لقصور کے کرناک مندر میں دوبارہ استعمال کیے گئے، تاہم بعد میں ماہرین آثار قدیمہ نے انہیں واپس لا کر مجسموں کی ازسرِنو تعمیر کی۔یہ عظیم مجسمے شہر لقصور کیلئے غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، جو قدیم مندروں اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے مشہور ہیں اور دنیا کے قدیم ترین آباد شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ بحالی اس کوشش کا بھی حصہ ہے کہ ''یہ دکھایا جا سکے کہ بادشاہ امنحوتپ سوم کا تدفینی مندر قدیم زمانے میں کیسا دکھائی دیتا تھا ‘‘، یہ بات محمد اسماعیل نے کہی جو سپریم کونسل آف اینٹی کوئٹیز کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ امنحوتپ سوم، جو قدیم مصر کے نمایاں ترین فرعونوں میں شمار ہوتے ہیں، نیو کنگڈم کے تقریباً 500 سالہ دور میں حکمران رہے، جو قدیم مصر کا سب سے خوشحال زمانہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فرعون، جن کی ممی قاہرہ کے ایک عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھی ہوئی ہے کا دور امن، خوشحالی اور شان و شوکت کیلئے مشہور تھا۔ ڈاکٹر ہیبِچٹ (Habicht)کے مطابق غیر ملکی حکمرانوں کی سفارتی تحریروں میں ان سے تحفے کے طور پر سونا بھیجنے کی درخواستیں کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ مصر میں سونا ریت کی طرح وافر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ اس قسم کے خطوط میں عام مبالغہ آرائی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بے پناہ دولت کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے۔ماہر تعلیم کے مطابق، یہ فرعون کسی حد تک عورتوں میں دلچسپی رکھنے والا بھی تھا، جس نے سیکڑوں غیر ملکی خواتین کو اپنے حرم میں شامل کرنے کیلئے مصر منگوایا۔انہوں نے کہاکہ بظاہر وہ خواتین میں بہت دلچسپی رکھتا تھا، اس نے سینکڑوں غیر ملکی خواتین اپنے گر دجمع کیں، بالکل اسی طرح جیسے بعض لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کرتے ہیں۔امنحوتپ سوم کا دورِ حکومت عظیم تعمیرات کیلئے بھی جانا جاتا ہے، جن میں ان کا مندر بھی شامل ہے۔ جہاں میمنون کے عظیم مجسمے واقع ہیں۔اس کے علاوہ نوبیا میں واقع سولیب کا مندر بھی ان کی تعمیری عظمت کی ایک نمایاں مثال ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات 40 سے 50 برس کی عمر کے درمیان ہوئی، اور وہ اپنے جانشین (بیٹے امنحوتپ چہارم ) کیلئے ایک ایسی سلطنت چھوڑ گئے جو طاقت اور دولت کے عروج پر تھی۔

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

WORLD MEDITATION DAY:ذہنی دبائو کے دور میں مراقبہ کی اہمیت

دنیا بھر میں آج ''مراقبہ کا عالمی دن‘‘ منایا جا رہا ہےہر سال 21 دسمبر کو دنیا بھر میں مراقبہ کاعالمی دن (world Meditation Day) منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس دن کے منانے کا مقصد انسانوں کو ذہنی سکون، باطنی توازن، روحانی ہم آہنگی اور پرامن طرزِ زندگی کی طرف راغب کرنا ہے۔ موجودہ دور میں جہاں مادّی ترقی نے زندگی کو تیز رفتار بنا دیا ہے، وہیں ذہنی دباؤ، بے چینی، اضطراب اور نفسیاتی مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں مراقبہ ایک ایسا مؤثر ذریعہ بن کر ابھرا ہے جو انسان کو خود سے جوڑتا اور اندرونی سکون عطا کرتا ہے۔مراقبہ دراصل توجہ، یکسوئی اور شعوری آگہی کی ایک قدیم مشق ہے جس کی جڑیں مختلف تہذیبوں اور مذاہب میں ملتی ہیں۔ بدھ مت، ہندو مت، تصوف، یوگا اور دیگر روحانی روایات میں مراقبہ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اس کی شکلیں اور طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہی ہے، ذہن کو پرسکون کرنا، خیالات کی بے ترتیبی کو کم کرنا اور انسان کو حال سے جوڑنا۔اقوامِ متحدہ نے عالمی مراقبہ دن کے اعلان کے ذریعے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ذہنی صحت، عالمی امن اور سماجی ہم آہنگی ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ جب فرد ذہنی طور پر پرسکون اور متوازن ہو تو وہ نہ صرف بہتر فیصلے کرتا ہے بلکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور باہمی احترام کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اسی لیے مراقبہ کو صرف ایک ذاتی مشق نہیں بلکہ ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق بھی مراقبہ کے فوائد کی تصدیق کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق باقاعدہ مراقبہ ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے، یادداشت اور توجہ میں اضافہ کرتا ہے، نیند کو بہتر بناتا ہے اور ڈپریشن و اینگزائٹی جیسے مسائل میں نمایاں کمی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ مراقبہ دل کی صحت، بلڈ پریشر کے اعتدال اور قوتِ مدافعت میں بہتری کا سبب بھی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے تعلیمی اداروں، دفاتر، ہسپتالوں حتیٰ کہ فوجی تربیتی مراکز میں بھی مراقبہ کو اپنایا جا رہا ہے۔عالمی مراقبہ دن کے موقع پر مختلف ممالک میں سیمینارز، ورکشاپس، اجتماعی مراقبہ نشستیں اور آگاہی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان تقریبات کا مقصد لوگوں کو مراقبہ کے سادہ طریقوں سے متعارف کروانا اور انہیں روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔ یہ دن اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ حقیقی خوشی اور سکون بیرونی وسائل میں نہیں بلکہ انسان کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں عالمی مراقبہ دن کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، جہاں معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور عدمِ استحکام نے عوام کو ذہنی طور پر تھکا دیا ہے۔ اگر تعلیمی نصاب، دفتری ماحول اور معاشرتی سطح پر مراقبہ جیسی مثبت عادات کو فروغ دیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بہتری آئے گی بلکہ مجموعی قومی مزاج بھی اعتدال اور برداشت کی طرف مائل ہو گا۔ تصوف اور روحانیت کی ہماری مقامی روایات بھی مراقبہ اور ذکر و فکر کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو ہمارے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے تنازعات، جنگوں اور نفرت انگیز رویّوں کے تناظر میں مراقبہ کا پیغام مزید اہم ہو جاتا ہے۔ جب افراد اپنے اندر امن پیدا کرتے ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی امن کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ اسی سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہے کہ عالمی امن کا آغاز فرد کے دل و دماغ سے ہوتا ہے۔آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی مراقبہ دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری دعوت ہے۔ یہ دعوت ہے رک کر خود کو سننے کی، اپنی سانسوں کو محسوس کرنے کی اور زندگی کی دوڑ میں اپنے باطن کو نظرانداز نہ کرنے کی۔ اگر ہم روزانہ چند منٹ بھی مراقبہ کیلئے وقف کر لیں تو ہماری زندگی میں سکون، توازن اور مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ ایک پرسکون فرد ہی ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھ سکتا ہے اور یہی عالمی مراقبہ دن کا اصل پیغام ہے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!بلقیس خانم:راگوں کی ملکہ (1948-2022ء)

٭... 25 دسمبر 1948ء کو لاہور کے ایک نیم متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ٭...وہ پانچ بہنوں، دو بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔٭... کلاسیکی موسیقی میں ان کے استاد محمد شریف تھے۔٭...1964ء میں ریڈیو پاکستان کا رخ کیا، ابتدا میں کورس میں گایا۔٭...سولو پرفارمنس کا آغاز ناصر کاظمی کی غزل ''تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی‘‘ سے کیا۔پی ٹی وی پر پنجابی گیت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ٭...65ء کی جنگ میں کئی ملی نغمے گائے۔٭...فلم انڈسٹری میں آمد موسیقار خلیل احمد کی وجہ سے ہوئی ، جن کی فلم ''تصویر‘‘ کیلئے اْنھوں نے گانا ''بلما اناڑی‘‘ ریکارڈ کروایا، جو سینسر کی نظر ہو گیا۔٭...موسیقار خواجہ خورشید انور، نثار بزمی اور نوشاد صاحب کے ساتھ بھی کام کیا۔٭...70ء کی دہائی میں کراچی شفٹ ہو گئیں۔جہاں جلد ہی پی ٹی وی سے جڑ گئیں، مشہور زمانہ گیت ''انوکھا لاڈلہ‘‘ وہیں ریکارڈ کروایا۔ پروڈیوسر امیر امام کے پروگرام ''سرگم‘‘ میں یہ گیت پہلی بار پیش کیا گیا۔٭... 1980ء میں ستار نواز استاد رئیس خان سے شادی کے بعد بھارت چلی گئیں۔٭...1986ء میں خاندان کے ساتھ پاکستان واپس آئیں اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔٭...معروف موسیقار محسن رضا ان کے بھی ہیں۔٭... 21دسمبر2022ء کو ان کا انتقال ہوا۔مقبول غزلیں٭...وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا(پروین شاکر)٭...کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں( عبید اللہ علیم)٭...مت سمجھو ہم نے بھلا دیا٭...انوکھا لاڈلہ

آج کا دن

آج کا دن

پہلا باسکٹ بال میچ 21 دسمبر 1891ء کو امریکی ماہرِ تعلیم جیمز نائس سمتھ نے باسکٹ بال کے کھیل کا پہلا باضابطہ میچ منعقد کروایا۔ نائس سمتھ نے یہ کھیل سردیوں میں طلبہ کو جسمانی طور پر متحرک رکھنے کیلئے ایجاد کیا تھا۔ ابتدا میں کھیل میں فٹ بال استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قواعد میں تبدیلیاں آئیں اور آج یہ دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں شامل ہو چکا ہے۔اپالو 8 خلائی مشناپالو 8 ناسا کا تاریخی اور انقلابی خلائی مشن تھا جو 21 دسمبر 1968ء کو لانچ کیا گیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے باہر نکل کر چاند کے گرد گردش کی اور اس دوران زمین کے طلوع ہونے والی مشہور تصویر ''ارتھ رائز‘‘ لی گئی۔ اپالو 8 کی کامیابی نے بعد میں اپالو 11 کے ذریعے انسان کے چاند پر قدم رکھنے کی راہ ہموار کی اور خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کیا۔ سانتا ماریا قتل عامچلی کی فوج نے 21 دسمبر1907ء کو کان کنوں کا قتل عام کیا۔رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2ہزار سے بھی زیادہ تھی۔قتل عام کا مقام ڈمنگو سانتا ماریا سکول تھا جہاں دوردراز علاقوں سے آئے ہزاروں کان کن ایک ہفتے سے ٹھہرے ہوئے تھے۔اس قتل عام کے نتیجے میں نہ صرف ہڑتال ٹوٹ گئی بلکہ مزدوروں کی تحریک ایک دہائی سے زائد عرصے تک معطل رہی۔پین ایم فلائٹ103حادثہ21دسمبر1988ء کو فرینکفرٹ سے نیویارک جانے والی پرواز ''پین ایم فلائٹ 103‘‘ میں اس وقت بم دھماکہ ہوا جب جہاز سکاٹ لینڈ کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ جہاز میں سوار 243مسافر اور عملے کے 16 افرادسمیت 11افراد زمین پر بھی ہلاک ہوئے۔کل 270ہلاکتوں کے ساتھ یہ اُس وقت برطانیہ کا سب سے مہلک دہشت گردحملہ تھا۔نیپال ،برطانیہ معاہدہنیپال اور برطانیہ کے درمیان پہلے معاہدے پر دستخط21دسمبر1923ء کو سنگھار دربار میں کئے گئے۔یہ معاہدہ برطانیہ کا پہلا باضابطہ اعتراف تھا کہ نیپال ایک آزاد ملک کے طور پر اپنی خارجہ پالیسی کو کسی بھی طرح سے چلانے کا حق رکھتا ہے۔ اس معاہدے کو سفارتکاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا۔ معاہدہ 1925ء میں لیگ آف نیشنز میں بھی درج کیا گیا۔ اینٹونوو این225 کی پروازاینٹونوو این 225 ایک سٹریٹجک ائیرلفٹ کارگو ہوائی جہازجسے سوویت یونین میں اینٹونوو ڈیزائن بیورو نے ڈیزائن اور تیار کیا تھا۔یہ اصل میں 1980ء کی دہائی کے دوران اینٹونو و این124ائیر لفٹر کے ایک وسیع مشق کیلئے تیار کیا گیا تھا جس کا مقصد فضا میں ہونے والی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔21دسمبر1988ء کو اینٹونوواین225نے اپنی پہلی پرواز کی۔اسے دنیا کا سب سے بڑا ہوائی جہاز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔