شیر گڑھ
اسپیشل فیچر
ضلع اوکاڑہ اور تحصیل دیپالپور کا یہ قصبہ، رینالہ خورد سے حجرہ شاہ مقیم کو جانے والی پختہ سڑک پر ۱۳ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ چھ قصبوں جوئیاں والا، رادھا رام، دیپالپور، رینالہ خورد، اختر آباد اور حجرہ شاہ مقیم سے جُڑا ہوا ہے۔ یہاں شیر شاہ سُوری نے ۱۴۶۱ء میں سپاہیوں کے قیام کے لیے ایک فوجی چوکی قائم کی تھی، جس کی وجہ سے اس کا نام شیر چوکی پڑ گیا۔ زمانے کی روش نے اسے شیر گڑھ بنا دیا۔ تاریخ کی کتابوں میں واضح لکھا ہے کہ جب ہیبت خاں نیازی شیر شاہ سُوری کی طرف سے پنجاب کا صوبیدار تھا، تو اس نے ایک فوجی کمانڈر فتح جنگ کو ملتان میں متعین کیا۔ فتح جنگ نے باغی قبائل کی سرکوبی اور ان پر نگرانی رکھنے کے لئے شیر شاہ کے نام پر قلعہ شیر گڑھ کی تعمیر کی جبکہ مخزن پنجاب کے مصنف مفتی غلام سرور نے لکھا ہے کہ اس قصبہ کی بنیاد پہلے سیّد شیر شاہ قادری جو شیخ دائود کرمانی کے پیر بھائی نے رکھی تھی۔ سیّد شیر شاہ کا مقبرہ ملتان کے نواح میں ہے جبکہ شیخ دائود کرمانی شیر گڑھ میں مدفون ہیں۔ وہ اُوچ سے یہاں آکر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ انہیں مغل دور میں یہاں جاگیر عطا ہوئی تھی چنانچہ انہوں نے یہاں خود مختار حیثیت اختیار کی۔ انہوں نے علاقے میں تین گائوں بھی آباد کئے جو رنجیت سنگھ کے قبضے کے بعد فتح سنگھ گاندھی کے سپرد ہوئے ۔سکھوں کے عہد میں شیر گڑھ کو تعلقہ کی حیثیت حاصل تھی۔حضرت شیخ دائود کرمانی نے علاقے کے ہزاروں غیرمسلموں کو مسلمان کیا۔ مولانا جمال الدین المعروف شیخ بہلول دہلوی، شیخ سیف الدین عبدالوہاب شاہ، ابو اسحاق قادری لاہور اور حضرت شاہ ابو المعالی آپ کے بھتیجے ہیں اور ان کے والد حضرت شیخ رحمت اللہ کا مزار بھی شیر گڑھ میں ہے۔ حضرت شاہ المعالی ۲۹ سال تک شیر گڑھ میں آپ کے قائم مقام اور جانشین رہے۔ آپ کا مزار بھی انہوں نے ہی تعمیر کروایا۔ بعدازاں یہ لاہور آگئے۔ حضرت دائود کرمانی کے مزار کی دیواروں پر جو اشعار ہیں، وہ آپ ہی کے ہیں۔ حضرت دائود کرمانی کا سالانہ عرس ہر سال شیر گڑھ میں ۱۳ تا 20 مارچ کو ہوتا ہے۔ حضرت دائود کرمانی کے مزار کے احاطہ میں آپ کے خاندان کے کئی افراد مدفون ہیں۔ ان میں آپ کے بھائی سیّد رحمت اللہ شاہ کرمانی بھی ہیں۔ انہوں نے شیر گڑھ میں ایک مدرسہ بھی قائم کر رکھا تھا اور حضرت دائود بندگی نے انہی سے ابتدائی تربیت حاصل کی تھی۔ ایک اور قبر ہاکی کے معروف کھلاڑی سیّد محمد جعفر شاہ کرمانی کی ہے، جن کا تعلق اسی خاندان سے تھا۔ وہ قیامِ پاکستان سے قبل ہندوستان کی قومی ہاکی ٹیم کے رکن رہے اور اس حیثیت سے انہوں نے ۱۹۳۲ء میں لاس اینجلس میں منعقد ہونے والے ورلڈ اولمپکس کے مقابلوں میں حصہ لیا اور فتح حاصل کی۔ یہ ہمہ صفت نوجوان جب بمشکل ستائیس سال کا تھا، مرغابی کے شکار کے دوران ایک جھیل میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ اس کی یاد میں متعدد ہاکی ٹورنامنٹس بھی منعقد ہوئے۔ شیر گڑھ میں شیر شاہ سُوری نے ایک مسجد بھی تعمیرکروائی تھی۔ اس کا بیشتر حصہ ۱۹۵۵ء میں گر گیا۔ صرف بائیں جانب دو دروازے کھنڈرات کی صورت میں ۱۹۵۸ء تک باقی رہے۔ قدیم عمارت کی لمبائی ۱۰۰ فٹ اور چوڑائی ۲۵ فٹ تھی۔ اس کے پانچ دروازے اور پانچ گنبد تھے۔ وسطی گنبد سب سے بلند تھا۔ ہر کونے پر ہشت پہلو مینار تھے۔ ایک مینار قریباً تیس فٹ اونچا تھا۔ شیر گڑھ کا علاقہ زرعی اجناس کے لئے مشہور ہے۔ گندم، دھان، مکئی اور آلو یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ یہاں مویشیوں کی افزائش کا فارم بھی ہے جبکہ علی خان فلورمل اور مرغیوں کی ادویات تیار کرنے کا ادارہ شریف فیڈرز اہم صنعتی یونٹ ہیں۔ مچلزکمپنی کا اچار تیار کرنے کا کارخانہ بھی یہیں واقع ہے جبکہ اس کی پیکنگ رینالہ خور د میں ہوتی ہے۔ یہاں طلبا و طالبات کے سرکاری ہائی سکول، نجی سطح کے دائود بندگی پبلک سکول اور طاہر اکیڈمی جیسے ادارے بھی موجود ہیں۔ شیر گڑھ کا تھانہ ۲۰۰۷ء میں قائم ہوا۔ اس سے پہلے یہ تھانہ صدر رینالہ خورد کی ایک چوکی تھی۔ مین بازار، سبزی منڈی ،دیپالپور روڈ، حجرہ روڈ اور بائی پاس یہاں کے اہم کاروباری مراکز جبکہ محلہ صدیق نگر، فاروق نگر، محلہ حامد حسین، محلہ دربار شریف، محلہ نور شاہ ، محلہ جیوے شاہ، محلہ ناتیاں والا، ٹھٹھی شیخاں او رمحلہ حسینی موڑ وغیرہ رہائشی بستیاں ہیں۔ کھانے پینے میں یہاں کی برفی بڑی مشہور ہے۔(اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭