’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘
اسپیشل فیچر
جتنی پُرانی ہماری سوچ ہے، اتنا پُرانا ہی یہ جملہ ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کوئی بھی کاروبار زندگی ہو، چاہے کوئی بھی معاملہ ہو، ہم ایک بار یہ ضرور سوچتے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔یہ نہیں کرنا چاہیے، وہ نہیں کرنا چاہیے، ایسا ہو گا، ویسا ہو گا وغیرہ کو ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ہم نے اپنی روزمرہ زندگی کو اس جملے کا اس قدر محتاج کر لیا ہے کہ صحیح فیصلہ کرنے کے باوجود اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کئی حسین لمحوں، پل، وقت اور روزمرہ زندگی کو گزارتے ہوئے بھی ہماری یہی سوچ ہوتی ہے اور اسی سوچ کی بدولت ہم نے اپنی زندگی کو مزید مسائل سے دوچار کرلیا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔ویسے ایک سوچنے کی بات ہے کہ لوگ کون؟ ارے لوگ ہم ہی وہ تمام افراد جن سے مل کر ایک معاشرہ بنتا ہے، لوگ کہلاتے ہیں اور جب اس معاشرے میں نظر ڈالیں تو ہر انسان ہی ذہنی و نفسیاتی قید میں جکڑا ہوا ملتا ہے اور اسی قید اور جملے نے ہمیں آزاد رہنے ہی نہیں دیا۔ ہمارے پیدا ہونے سے بوڑھے ہونے تک، زندگی کے ہر لمحے، ہر میدان، ہر رشتے ناطے، ہر کام اور ہر مقصد میں ہمیں یہی خوف ہمہ وقت اپنے گھیرے میں لیے رکھتا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم ایسے ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں، جہاں ہمارے آباؤاجداد، بزرگ اور بچے اور باشعور افراد سب اسی خوف میں رہتے ہیں کہ اگر یہ کر لیا یا وہ کر لیا تو ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘شادی بیاہ کے معاملے میں بھی اسی لیے مسائل درپیش ہیں کہ اگر لڑکا لڑکی سے چھوٹا ہوا تو؟ یا ذات برادری سے باہر رشتہ ہو گیا تو؟ اور چھوٹی بہن یا بھائی کا لوگ اس لیے رشتہ یا شادی نہیں کرتے کہ ابھی اس سے بڑے بہن بھائی کی شادی ہونی رہتی ہے اور چھوٹوں کی شادی کر دی تو ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ جہاں تک میرا ماننا ہے شادی یا دیگر معاملاتِ زندگی قسمت کی باتیں ہیں اور یہ سب اسی وقت وقوع پذیر ہوں گی، جو وقت قسمت میں لکھا جا چکا ہے، لیکن یہی لوگ ہوتے ہیں ،جو والدین کو بچوں کی شادی نہ ہونے پرطعنے دیتے ہیں اور والدین بچے اور بچیوں کی بڑھتی عمر سے پریشان ہو کر سوچتے رہتے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ وغیرہ یا پھر کسی نے اپنی مرضی کی شادی کر لی یا پھر کسی نو مسلم کا رشتہ ہو، تو بھی سب سے پہلے یہی سوچا جاتا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘چاہے ان باتوں کی بناء پر کسی کی زندگی ہی کیوں نہ تباہ و برباد ہو جائے، اس بات کی پرواہ نہیں کی جاتی، بس وہی ایک جملہ کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔یہ جو جملہ ہے نا ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ میرے خیال میں یہ ایک عالمگیر شہرت یافتہ جملہ ہے کیونکہ ہم کسی بھی مُلک، شہر یا معاشرے میں چلے جائیں اس جملے کے بَد اثرات (اچھے تو خیر کم ہی ہوںگے) بدرجہ اتم دِکھائی دیں گے اور سو میں سے ننانوے فیصد لوگ اس کے متاثرہ ہوں گے۔ اپنے ہی گھر کی مثال لے لیں آپ کوئی بھی ایسا پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہوں جیسے کہ ڈریس ڈیزائنر، بیوٹیشن، ہیر ڈریسر یا گلوکاری و اداکاری وغیرہ ،تو سب سے پہلے آپ کو اپنے دِل و گردہ مضبوط کر کے خاندان بھر کے طعنے سُننے پڑیں گے اور پھر ہائے رے قِسمت وہی جُملہ کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔اُف، اُف، اُف، اس جُملے نے ہمارے کئی معاملوں میں آسان زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔ میرے خیال میں زندگی میں ننانوے فیصد سوالات اسی جُملے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے آس پاس، بہت سے روزمّرہ واقعات رُونما ہوتے ہیں جو کہ زیادہ تر مَنفی اثر لیے ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو آپ کو پتہ لگے گا کہ اس کی وجہ بھی یہی الم ناک جُملہ ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔یہاں کُچھ اور سوال بھی پیدا ہوتے ہیں، اسی اک جُملے کی بدولت کہ کیا ہماری مرضی کُچھ نہیں؟ کیا ہماری زندگی ہماری نہیں، جو ہم اسی جُملے کو ذہن پر سوار رکھتے ہیں۔ کیا زندگی کا کوئی بھی معاملہ طے کرتے ہوئے، کوئی اہم فیصلہ لیتے ہوئے ہم لازمی سوچیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔ٹھیک ہے انسان معاشرتی جانور ہے اور اس کی بقاء معاشرے کے بغیر نا ممکن ہے، پھر بھی کیا ضروری ہے کہ ہم زندگی میں ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ ہی سوچتے رہیں؟ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے اور ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی جُملے اور خوف کی نذز کر دیتے ہیں کیا یہ نا انصافی نہیں؟ہماری زندگی اسی ایک جملے کو سوچتے، کھوجتے اور اس سے ڈرتے گُزر جاتی ہے، خدارا ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ’’ اللّہ کیا کہے گا؟‘‘ آخر کب تک ہم لوگوں کی سُنتے رہیں گے؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس ہو گا، تو بھی ہم جاننا پسند نہیں کرتے اور جن کو جواب آتا بھی ہے، وہ محض لوگوں کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں۔ یہ جملہ جو کہ واقعی سوچے سمجھے اور عمل کیے جانے کے لائق ہے کہ ’’اللّہ کیا کہے گا؟‘‘۔جب تک ہم اللّہ کا خوف اور اُس کی محبت کو دل میں نہیں بسا لیتے تب تک ہمیں یہی خوف مارتا رہے گا کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔٭…٭…٭