ظہور نظر ترقی پسند فکر کے ترجمان سخن ور کی 35 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

اسپیشل فیچر
ظہور نظر 22 اگست 1923ء کو بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ اصل نام ظہور احمد تھا۔ صحافت سے وابستہ رہے۔ مختلف فلموں کے لئے نغمے لکھے۔ ترقی پسند فکر کا پرچار کیا۔ بہاولپور کا یہ روشن ستارہ 7 ستمبر 1981ء کو بجھ گیا۔ غم کی آگ میں جلنے والے ، ہر دکھ چُپ چُپ سہنے والے، نظمیں غزلیں کہنے والے ، ترقی پسند اور پرُامن شہر بہاولپور سے تعلق رکھنے والے ادیب اور شاعر ظہور نظر 7 ستمبر 1981ء کو پیوند خاک ہوئے۔اقبا ل ، فیض اور منیر کے بعد و ہ ایک ایسے شاعر ہیں، جنہوں نے بیک وقت نظم اور غز ل میں مقدار و معیار کے لحاظ سے اُردو ادب میں نمایاں ترین اضا فے کیے بالخصوص نظم نگاری کے میدان میں اسلوب اور تکنیک کے اعتبارسے وہ ایک ممتاز ترین مقام کے حامل ہیں۔’’ریزہ ریزہ‘‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے، جس میں آزاد اور پابند نظم کا ایک اورمنفرد امتزاج موجود ہے، جس کو کوئی مخصوص نام نہیں دیا جا سکتا۔ بقول احمد ندیم قاسمی ’’ ظہور نظر نے جو نظم کہی و ہ تصدق حسین خالد ، میرا جی اور ن م راشد کے برعکس ایک بالکل الگ صنف ہے ۔ اگر ہمارے ہاں آزاد نظم کو زندہ رہنا ہے، تو اسے ظہور نظر کا سلیقہ اختیار کرنا ہوگا‘‘۔ریزہ ریزہ میں شامل سرگوشی، میں نادم ہوں ، محنت کش، آخری ملاقات ، یہ جنگل کون کاٹے گا اور یہ جبر کی کون سی منزل ہے ایسی نظمیں ہیں، جن میں شاعر کا فن بلندیوں کو چُھورہا ہے۔ظہور نظر عام اور زبانی قسم کے ترقی پسند شاعر نہیں۔ انہوں نے حمید اختر ، م حسن لطیفی اور ساحر لدھیانوی کی رفاقت میں اس فکر کو نہ صرف اپنا نظریہ فن بنایا بلکہ آخری دم تک اس ترقی پسند فکر کے عملی مبلغ بھی رہے ۔ حمید اختر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کرشن چندرکے معروف افسانے ’’ ان داتا‘‘ کو سٹیج کرنے کا خیال سوجھا ،تو ظہور نظر نے اس میں بھر پور اورکلیدی کردار اد ا کیا ۔ان کا دوسرا مجموعہ کلا م’’ وفا کاسفر ‘‘ کے نام سے 1986ء میں شائع ہوا، جس میں نظموں کے ساتھ ساتھ 78 غزلیات بھی شامل ہیں ۔اُردوشاعری کو ایسے نادر نمونے / فن پارے دینے والے شاعر کوزندگی بھر سخت جدوجہد کا سامنا رہا ۔ زندگی کی سختی اور تلخی کو سہنا پڑا ۔ فکری اور عملی طور پر ان کی زندگی کامیاب جدوجہد سے عبارت ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ ترقی پسندانہ اور مثبت رویوں کو پروان چڑھانے میں اپنا خون جگر صرف کیا ۔ فروغ صبح چمن میں ایک کُل وقتی ترقی پسند شاعر کا کردار ادا کیا ۔اہل ِ شہر کی طر ف سے کم وبیش اسی قسم کی ناقدری ، سفاکی اور بے حسی اس ظہور نظر کے ساتھ برتی گئی ،جو بہاولپور کی پہچان تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس روشن فکر شاعر کی اعزاز کے ساتھ تدفین کی جاتی، مگر افسوس صد افسوس کہ نمازِ جنازہ کے وقت اورمقام کا اعلان ہونے سے قبل اُن کے کافر اور ملحد ہونے کے اعلانات کیے گئے اور اہل ِ شہر کو ان کی نمازِ جنازہ ادا کرنے سے روکنے کی مذموم کوشش کی گئی ۔ اُن کے قریبی دوستوں اور عزیزوں کو تدفین سے پہلے ظہور نظر کو ’’مسلمان ‘‘ ثابت کرنا پڑا۔شہر کے مفتی نے مرحوم کا اسلامی کلام دیکھ کر ظہور نظر کو ’’مسلمان ‘‘ قرار دیا۔یوں ’’ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘۔ ظہور نظر کی ادبی برادری نے ان کی وہ پذیرائی نہ کی، جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے ۔ ظہور نظر کے فن اور شخصیت پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر خالق تنویر کے بقول ’’ہمارے ذرائع ابلاغ نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی، وہ ناقدین کی بے اعتنائی اور ظالمانہ بے رُخی کا شکار ہوئے ‘‘ ۔ اپنے اعلیٰ آدمی کے ساتھ اہل شہرکا یہ سلوک اور اہل قلم کا یہ رویہ اگرچہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں، مگر ہم کب تک اپنے تخلیق کاروں کو گمنامی کے گڑھوں میں دھکیلتے رہیں گے ؟ کب تک ہر معتبر لکھاری کو گھٹیا اور فضول قسم کے الزامات سے نامعتبر کیا جاتا رہے گا؟ کب تک شاعر اور ادیب کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا رہے گا؟کب تک ہم کسی کی عظمت کا اعتراف کرنے میں بخل اور مصلحت سے کام لیتے رہیں گے؟ کب تک ہم منٹو، شکیب اور اقبال ساجد جیسے بے بدل تخلیق کاروں پر بات کرنے سے کتراتے اور ہچکچاتے رہیں گے؟ کب تک ان کے فن اور شخصیت کو شجر ممنوعہ قرار دیتے رہیں گے ؟ کب تک حقائق سے نظریں چُراتے رہیں گے؟ تاریخ شاہد ہے کہ عظیم تخلیق کار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ ظہور نظر جیسے لوگ اپنے شہر کا فخر ہوتے ہیں،ایسے لوگ بہت کمیا ب ہیں ۔ ان کی قدردانی اور فن شناسی سماجی اور ریاستی ہر دو سطح پر ضروری ہے ۔نمونہ کلامدیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیںرات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرفجان لیوا خوف تھا لیکن ہُوا کچھ بھی نہیںوہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر میں نے اُ س کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیںترے ستم کا گلہ یوں بھی کر گئے ہیں لوگ کہ اور کچھ نہ چلا بس تو مر گئے ہیں لوگ زمین پائوں تلے تھی نہ عرش سر پر تھامگر میں پھر بھی کسی آس کے سفر پر تھاگرا مکان مجھ آوارہ شخص کا جس شبمیں اتفاق سے اس روز اپنے گھر پر تھا٭…٭…٭