گلوبل وارمنگ
اسپیشل فیچر
زمینی ماحولیاتی تبدیلی اب وسیع اقدام کی متقاصی ہے۔اس خطرے کی گھنٹی دنیا کے ہر دارالخلافہ میں بجنی چاہیے۔(جان گمر،برٹش انوائرمنٹ سوسائٹی)۔اس کرہ ارض میں بیسویں صدی میںاعشاریہ چھ ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔فضاء میں مختلف گیسیں موجود ہیں۔ ان گیسوں کی زیادتی کی وجہ سے سورج کی کرنیں زمین سے ٹکرانے کے بعد خلا میں نہیں جا سکتیں۔اس عمل کو گلوبل وارمنگ یا زمینی تپش میں اضافہ کہتے ہیں۔گلوبل وارمنگ کی کئی وجوہات میں زیادہ تر وہی ہیں جو انسان کی پیداکردہ ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار کو پورا کرنے کیلئے ہم تیل یا گیس جلاتے ہیں اور تیل کا استعمال کاروں اور بسوں میں بھی ہوتا ہے، تو نتیجتاً ایک گیس کاربن ڈائی آکسائڈ فضا میں جاتی ہے۔ یہ گیس سورج کی ان کرنوں کو واپس خلا میں جانے سے روکتی ہے جو کہ زمین سے ٹکرا کر یا پانی سے منعکس ہو کر واپس خلا میں جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ یا زمینی تپش میں اضافہ ہو رہا ہے۔زمینی تپش میں اضافہ کی دوسری بڑی وجہ وہ میتھین گیس ہے جو کھیتوں سے پیدا ہوتی ہے۔خصوصاً جب چاول کے کھیت کو پانی لگایا جاتا ہے تو پھر میتھین گیس پیدا ہوتی ہے۔ اسکے علاوہ یہ صنعتی فضلے اور جانوروں سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ گیس بھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی طرح اپنا کردار ادا کرتی ہے۔اس کے علاوہ نائٹروجن آکسائڈ اور کلوروفلوروکاربن بھی زمینی تپش کا باعث بنتی ہیں۔گلوبل وارمنگ کی تیسری وجہ زیادہ سے زیادہ آبی بخارات کا فضا میں جانا ہے۔زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے سمندروں، دریاوں اور گلیشیرز کا پانی فضا میں آبی بخارات کی صورت میں اڑ جانا ہے۔اس طرح نا قابل استعمال کرنیںخلا میں نہیں جا سکتیں اور زمین کا درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے۔آجکل زمین پر درجہ حرارت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔گلوبل وارمنگ کی چوتھی اور آخری وجہ درختوں کا کاٹنا ہے۔ در خت کاٹنے سے فضا میں موجود آکسیجن کی مقدار کم اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنی خوراک بنانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔جو کہ زیادہ ہونے پر زمینی تپش کا باعث بنتی ہے۔زمینی تپش کے باعث برفانی تودے پگھل رہے ہیں۔ پگھلتی ہوئی برف سطح سمندر کو بلند کرنے کا سبب بن رہی ہے اور تازہ پانی میں کمی کا موجب ہے۔سطح سمندر کی بلندی سیلاب، طوفان کا باعث بنتی ہے اور تازہ پانی کی کمی سے خوراک کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔زمینی تپش میں اضافہ جانوروں پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔جانور اپنی فطرتی پناہ گاہیںاور موسمی تبدیلیوں کو قبول کرنے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔جس کی وجہ سے بہت سے پودوں اور جانوروں کی اقسام معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔زمینی تپش کے اثرات موسموں پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔موسم گرما بتدریج موسم سرما سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔یہ نئی بیماریوں کا موجب بھی بن رہی ہے اور ایسی بیماریوں کا بھی جو کہ دنیا کے کچھ حصے سے معدوم ہو چکی ہیں مثلاً ملیریا اور ڈینگی۔موسمی تبدیلیاں کھیتی باڑی پر بھی اثرانداز ہو رہی ہیں جو کہ اچانک درجہ حرارت میں اضافہ یا اچانک بارش کی وجہ سے ہوتی ہیں۔زمینی تپش کا سب سے زیادہ موئثر حل متبادل توانائی کے ذرائع کا استعمال ہے جیسا کہ شمسی،آبی اور ہوائی توانائی ،جو کہ کوئلہ، آئل اور قدرتی گیس کی جگہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔زمینی تپش کا مسئلہ تمام بنی نوع انسانی کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے سیارے کی حفاظت اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔٭…٭…٭