طلبہ کی رہنمائی و کونسلنگ اور تعلیم
اسپیشل فیچر
تعلیم کا مقصد محض ناصرف طلبہ کو علم و شعور عطا کرنا ہے بلکہ ان کے رجحانات، دلچسپیوں اور صلاحیتوں کے مطابق انہیں کسی خاص پیشے میں ماہر بنانا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں و دلچسپیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شعبے میں اچھا نام پیدا کرکے بہتر روزگار بھی حاصل کرسکیں۔اسی لیے مڈل کلاس تک طلبہ کو وہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں جس سے ان کی اخلاقی اقدار تعمیر ہوسکیں، وہ زبان کے لکھنے و پڑھنے سے آگاہ ہوجائیں، سوشل سائنس کے متعلق انہیں خاصا علم ہوسکے، وہ اپنے آپ اور ملک و قوم کے بارے میں آگاہ ہوسکیں۔اسی طرح مڈل کے بعد طلبہ کے لیے مختلف شعبوں کے الگ الگ راستے کھلتے ہیں جو آگے چل کر انٹر، بیچلر و ماسٹر لیول تک جاکر وسیع سے وسیع ترہو جائیں گے۔ یہی طلبہ کے لیے اپنے مخصوص شعبے کے انتخاب کا وقت ہوتا ہے۔ آگے جا کر طلبا کی پوری زندگی اسی انتخاب پر منحصر ہوتی ہے، اس لیے اسی مرحلے پر طلبا کو رہنمائی و کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی دلچسپیوں، رجحانات اور ذہانت کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہے تاکہ وہ آگے چل کر پسندیدہ شعبے تک پہنچ سکیں۔رہنمائی و کونسلنگ کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ طلبا کے کیریئر کا اپنی طرف سے انتخاب کیا جائے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کیریئر کی راہ میں حائل رکاوٹ کی کنفیوژن کو دور کیا جائے۔ طالب علم کو اس کے چنے ہوئے راستے کا بتایا جائے کہ یہ راستہ کس منزل تک جاتا ہے۔ انہیں ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے مطابق آگاہ کیا جائے اور کم زوریوں سے باخبر رکھا جائے۔ انہیں آگے پیش آنے والی پیچیدگیوں سے ہوشیار کیا جائے تاکہ طلبا کسی غلط ٹریک پر جانے سے بچ سکیں اور صحیح راستے پر گامزن رہیں۔اس لیے رہنمائی و کونسلنگ کسی بھی نظام تعلیم کا لازمی امر ہے۔ اس کے بغیر اگر پیدا ہوں گے تو بھٹکے ہوئے تعلیم یافتہ ہی پیدا ہوں گے۔ اس کے باوجود ہمارے نظام تعلیم میں رہنمائی و کونسلنگ کا فقدان ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ طلبا جب جماعت نہم میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کے پورے کیریئر کا فیصلہ بنا سوچے سمجھے اور بنا منصوبے کے صرف دو منٹوں میں ہو جاتا ہے۔ یعنی استاد آکر پوچھ لیتا ہے کہ سائنس یا آرٹس؟ اکثر طلبا میچورٹی یا اپنے دوستوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ اس وقت انہیں اپنے اس فیصلے کا اندازہ نہیں ہوتا۔ بنا رہنمائی کے انٹر و یونیورسٹی لیول تک اکثر طلبا تکے سے شعبہ کا انتخاب کرتے جاتے ہیں اور اسی طرح آگے چل کر پورا تعلیمی عمل تکے کے اوپر گزر جاتا ہے۔بنا رہنمائی و منصوبے کہ طلبا اکثر معیارات، رجحانات اور ذاتی دلچسپیوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنے کی بجائے اس شعبے کا انتخاب کرتے ہیں جن میں یا تو پہلے ہی سے ان کا کوئی دوست یا عزیز جا چکا ہے، یا اس شعبے میں فیل ہونے کے چانسز کم ہیں یا پھر دوسروں کی نسبت سے وہ شعبہ پڑھنے میں آسان ہے۔ اسی طرح غلط شعبوں کے انتخاب سے اکثر طلبا عملی تعلیم کے دوران ڈراپ آئوٹ ہوجاتے ہیں یا پھر تعلیم سے ان کا لگاؤ و دلچسپیاں ختم ہوجاتی ہیں اور ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں۔اس غفلت و کوتاہی میں ناصرف ہمارا نظام تعلیم ذمہ دار ہے بلکہ اس میں ہمارے والدین بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے بچوں کو اسکول یا تعلیمی ادارے میں داخل کرکے اپنی پوری ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ انہیں نا ہی اپنے بچوں کی قابلیت و صلاحیت کا علم ہوتا ہے اور نا ہی وہ ان کی کم زوری و کوتاہیوں سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور نا ہی کبھی اسکول جاکر بچے کے متعلق معلومات لینا گوارا کرتے ہیں اور نا کبھی ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ تمہاری خواہش کیا ہے، تم کیا بننا چاہتے ہو، بلکہ بچے کو اس کے حال پر چھوڑ کر صرف یہ تنبیہہ کرتے ہیں کہ تم ڈاکٹر یا ٹیچر بنو۔استاد کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ طلبا سے خوش گوار تعلقات نہیں بنا پاتا، جس سے طلبا استاد سے اپنی دلچسپیوں کا ذکر کریں، انہیں اپنی کوئی خوبی دکھائیں یا ان سے کوئی مشورہ لینے کی ہمت کریں بلکہ استاد خود انفرادی طور پر طلبا کی رہنمائی کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور نا ہی ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے افراد اپنی ذات سے وقت نکال کر اپنے فرائض پر توجہ دیتے ہوئے طلبا کی کونسلنگ کرنے کی زحمت کرتے ہیں جو ان کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے۔اس طرح بنا رہنمائی کے نا ہم مختلف شعبوں میں ماہرین پیدا کرسکتے ہیں، نا ڈراپ آؤٹ طلبا کی تعداد کنٹرول کرسکتے ہیں، اور نا ہی شرح خواندگی میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔(بحوالہ ’’حال احوال‘‘)