واقعہ کربلا، پیغام اور سبق
اسپیشل فیچر
کربلا کے واقعہ اور حضرت امام حسین ؓ کے اقوال پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں ان میں بہت سے پیغامات اور پہلو نظر آتے ہیں۔ واقعہ کربلا کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ سید الشہدا امام حسین ؓ نے کربلا کے تپتے میدان میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے پیغمبر اسلام کی سنت کو زندہ کیا۔ بنی امیہ یہ کوشش کر رہے تھے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی سنت کو مٹا کر زمانہ جاہلیت کے نظام کو رائج کیا جائے۔ یہ بات امام ؓ کے اس قول سے سمجھ میں آتی ہے کہ ’’میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔ بلکہ میرا مقصد امت اسلامی کی اصلاح اور اپنے جد پیغمبر اسلام (ص) اور اپنے بابا علی بن ابی طالب کی سنت پر چلنا ہے۔‘‘بنی امیہ اپنے ظاہری اسلام کے ذریعہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے تھے۔ واقعہ کربلا نے ان کے چہرے پر پڑی ہوئی اسلامی نقاب کوالٹ دیا، تاکہ لوگ ان کے اصلی چہرے کو پہچان سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ نے انسانوں اور مسلمانوں کو یہ درس بھی دیا کہ انسان کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے فریبکار لوگوں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔حضرت امام حسین ؓ کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ آپ کے اس قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر تھا۔ آپنے ایک مقام پر بیان فرمایا کہ میرا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ایک دوسرے مقام پر بیان فرمایا کہ : اے اللہ! میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہوں اور یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو سب مسلمانوں پر واجب ہے۔ امام ؓ فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اچھی باتوں عمل نہیں کیا جا رہا ہے اور برائیوں سے روکا نہیں جا رہا ہے اور اسی چیز کو روکنے کے لیے امام ؓ اٹھ کھڑے ہوئے۔ آج بھی یزیدی فکر دنیا میں رائج ہے اور پروان چڑھ رہی ہے اور یہ حسینیت کا تقاضا ہے کہ حسینی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اچھائیوں کو رائج اور برائیوں کو ختم کرکے معاشرے کو ایک حقیقی اصلاحی معاشرہ بنا دیں کہ جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے۔امام حسین ؓ نے اپنی عظیم قربانی سے دنیا والوں کے سامنے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ حقیقی مسلمان کون ہے اور تھوڑے سے دنیوی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے کس نے اسلام اور دینداری کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ آزمائش کے بغیر سچے مسلمانون، معمولی دینداروں اور ایمان کے جھوٹے دعویداروں کو پہچاننا مشکل ہے۔ اور جب تک ان سب کو نہ پہچان لیا جائے، اس وقت تک اسلامی معاشرہ اپنی حقیقت کا پتہ نہیں لگاسکتا۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان، دینی پابندی و حق پرستی کے دعووں کو پرکھا جا رہا تھا۔ امام ؓ نے خود فرمایا کہ لوگ دنیا پرست ہیں جب آزمائش کی جاتی ہے تودیندار کم نکلتے ہیں۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جو آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رہے اور دنیوی مفادات کے لیے اپنی آخرت کو خراب نہ کر دے۔حضرت امام حسین ؓ کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت وآزادی کا مظہر ہے۔ امام ؓ کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سوجانا۔ امام نے ذلت کو پسند نہیں کیا اور عزت کی موت کو قبول کرلیا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ : ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کوقبول کرنے والا نہیں ہوں۔امام حسین ؓ کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا۔ کیونکہ امام ؓ نے اس جنگ میں پیغمبراکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ’’ اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ا ور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کوحرام کر رہا ہو، تواس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر اس راستے میں کسی بھی قسم کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔دین کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسے بچانے کے لئے ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں ،بھائیوں اور اولاد کو بھی قربان کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے امام ؓ نے شہادت کو قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اہمیت بہت زیادہ اور وقت پڑنے پر اس کو بچانے کے لئے سب چیزوں کو قربان کردینا چاہئے۔جس چیز پر دین کی بقا، طاقت، قدرت و عظمت کا دارومدار ہے وہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے۔ حضرت امام حسین ؓ نے دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ دین فقط نماز روزے کا ہی نام نہیں ہے، کربلا کے میدان میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، تاکہ لوگوں میں جذبہ شہادت زندہ ہو۔ امام حسین ؓ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایاکہ : میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں۔ آپ کا یہ جملہ دین کی راہ میں شہادت کے لئے تاکید ہے۔جو چیز عقیدے کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ ہے اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا۔ امام ؓ نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہ ہی کیا ،کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام ؓ نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہئے۔٭…٭…٭