وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا تاریخی دیہی علاقہ بھارہ کہو
اسپیشل فیچر
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد دنیا کے خوبصورت ترین دارالخلافوں میں شمار کیا جا تا ہے ۔60ء کی دہائی میں وطن عزیز پاکستان کے دارا لحکومت کا درجہ ملنے کے بعد وفاقی دارالحکومت کی تعمیر وترقی اتنی سرعت سے ہو ئی کہ قلیل عر صے میں وفاقی ترقیاتی ادارے CDAنے کثیر المنزلہ عمارات، پارکوں، خوبصورت سٹرکوں ،کاروباری مراکز ، پلازوں،پارلیمنٹ ہائوس،سپریم کورٹ،وزیر اعظم وصدر ہاوسز پنجاب ،سند ھ ،کے پی کے ، بلوچستان ہائوسز ، سفارتخانوں ، ہوٹلز ،ریستورانوں اور پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنیوں کے دفاتر اور اداروں، پھولوں اور رعنائیوں کا شہر بنا دیا۔ تاہم قریبا ً ساڑھے پانچ دہائیاں گزرنے کے باوجود اس دلفریب شہر کے دیہی علاقے آج بھی ملک کے کسی پسماندہ ترین علا قے سے کم نہیں۔یہاں کے باسی طبقاتی تفریق اور’’ اسٹیٹس کو‘‘ جیسی تقسیم کا شکار ہیں کہ جہاں اس شہر کے اربن ایر یاز میں ملک کی کریم آباد ہے تو دیہی علا قوں میں فاقہ کشی پر مجبور ومحروم پاکستانی بھی بستا ہے ۔ایک روایت کے مطابق بھارہ کہو جو ایف ایٹ کچہری اسلام آباد اور جڑوں شہر راولپنڈی کے مقام فیض آباد سے 12کوس کے فاصلے پر واقع ہو نے کی بنا پر ’’بارہ کو‘‘ کہلا تا ہے تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہا ں’’ کہو یعنی زیتون کے درخت کی ایک قسم ‘‘کے 12بڑے درخت تھے اس لئے ’’بارہ کہو ‘‘نام پڑاجبکہ ایک روایت کے مطابق ولی کامل حضرت شاہ عبدالطیف المعروف بری امام سرکار ؒ نور پور شاہاں، نے ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا،وہ درخت’’بھار‘‘یعنی متبرک ٹھہرا ، اس نسبت سے اس علاقے کو ’’بھارہ کہو ‘‘ یعنی متبرک درخت والا علاقہ پکارا جانے لگا۔یہ علاقہ چھتر پارک کی بنا پر بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا تحریک پا کستان کے دوران یہاں سے گزر ہوا اور چھتر کے مقام پر اُ نکا باقاعد ہ پرتپاک استقبال کیا گیا، بعد ازاں ذاولفقار علی بھٹو بھی مری جاتے ہو ئے متعددبھارہ کہو رکتے رہے ۔سابق چیئر مین سینٹ سید نیئر حسین بخاری کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جبکہ شہیدبھٹو کے قریبی رفقا ء میں سابق سنیٹر نرگس زمان کیانی ،سابق MNAراجہ ظہور خان ،راجہ پروپز خان کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے جبکہ سید ظفر علی شاہ کے آباواجدادبھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے ۔یوں سیاسی حوالے سے بھی یہ علاقہ اسلام آباد میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے اورکسی دور میں اس علاقے کی یونین کونسل پھلگراںکو ’’منی لاڑکانہ ‘‘ کہا جاتا تھا،پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی اسی علاقے میں بنی گالہ میں رہائش پزیر ہیں ۔کم وبیش 7سے8لاکھ آبادی کی 5یونین کونسلزپر مشتمل بھارہ کہو شاہدرہ ،پھلگراں ،پنڈ بیگوال ،تمیر ،بو بڑی ،سترہ میل ،چھتر ،ملپور ، جیلانی اور کو ٹ ہتھیال آج بھی تعلیم ،صحت گیس اور بنیادی سہولیات کے حوالے سے انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں ۔اسلام آباد کے حلقہ این اے 49میں ان علاقوں کے ووٹرز کی رائے یہاں سے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواران کی کامیابی یا ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر تی ہے مگر حالا ت کی ستم ظریفی کہ اس وقت اس علاقے میںلاکھوں طلبہ و طالبات کیلئے صرف ایک گرلز ڈگری کالج ، ایک گرلز ہائر سکینڈری سکول اور ایک بوائز ہائر سکینڈری سکول، چندہائی سکول اور مڈل سکولوںکے علاوہ محض انگلیوں پر گنے جانے والے پرا ئمری سکولز ہیں جوکہ یہاں کی آبادی کی 20فیصد بھی تعلیمی ضروریات پوری نہیں کرتے ۔صحت کی سہولیات پر نظر دوڑائی جائے توسرکاری سطح پر محض ایک دیہی مرکز صحت بھارہ کہواور دو بنیادی مراکز صحت جوکہ پنڈ بیگوال اور ملاٹہ میں قائم ہیں علاقے کی 5فیصد صحت کی ضروریا ت بھی پوری نہیں کرتے جبکہ اس کا فائدہ اُٹھا تے گلی کو چوں میں عطائیوں جعلی ڈاکٹروں اور نیم حکیموں نے دوکانیں کھول رکھی ہیں جن پر دل خوش کن سائن بورڈز لگا کر میٹرنٹی ہومز اور جنرل ہاسپٹلز کا جھانسہ دیکرغریب عوام کی صحت اور جیبوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔گیس جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کی کہانی بھی درد ناک ہے،1985ء میں جنرل (ر) ضیاء الحق نے یہاں ایک پولنگ اسٹیشن کا دورہ کیاتو عوام کے مطالبے پر اس علاقے کیلئے گیس فراہمی کا اعلان کیا،88ئمیں پی پی ،90ء میں ن لیگ ،پھر 93ء میں پی پی کی دوسری باری اور 96ء میں ن لیگ کی حکومتیں بننے کے باوجود یہاں گیس کی سہولت فراہم نہ کی گئی ۔جنرل مشرف کے دور میں ڈاکٹر امجد کی کاوشوں سے فراہمی گیس کے منصوبے کے حوالے سے پی سی ون منظور ہوا اور ابتدائی تخمینہ قریباً 8کروڑ لگایا گیا جس کے بعد عوام کو اس سہولت کی فراہمی کے منصوبے کاافتتاح اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیزنے وزیر اعظم ہائوس میں ہی کیاجس کے بعدپاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تویہ جاری منصوبہ پہلے 12پھر15اور بالآخر اس علاقے میں گیس پہنچتے پہنچتے 28کروڑ سے تجاوز کر گیا۔پی پی حکومت نے 5سال پورے کئے اور پھر ن لیگ نے باری لی ،تادم تحریراس منصوبے پر 30کروڑ سے زائد لاگت آچکی ہے لیکن عوام کوگزشتہ ڈیڑھ عشرے سے جاری اس منصوبے میں اس سہولت کی فراہمی کے حوالے سے ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف یونین کونسل بھارہ کہو اور کوٹ ہتھیال میںابھی تک 50فیصد سہولت فراہم کی جا سکی ہے۔ غریبوں کی زمین دن دیہاڑے محکمہ مال اور انتظامیہ کی پشت پناہی پر ہتھیانے کا معمول ہے۔ ندی نالے فروخت ہو چکے برساتی نالوں پر چھتیں ڈال کر گھر اور مارکیٹیں بنا کر نام و نشان تک مٹا یا جارہا ہے ۔نالہ کورنگ اور دیگر بڑے نالوں کی چوڑائی قبضہ ما فیا نے خطر ناک حد تک کم کردی ہے۔جس سے موسمی تبدیلوں اور کسی بھی وقت غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں درجنوں بلکہ سینکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصانات کے شدید خد شات ہیں ۔بھارہ کہو جس کی آبادی گزشتہ دو عشروں میں کئی سو فیصد بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ چکی ہے انداز لگایاجارہا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں یہ آباد ی 10لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔