بابو سرپاس کے پاس
اسپیشل فیچر
اس بار عید قرباںپر ہم نے لذتِ کام و دہن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ دیدہ و دل کوفطرت اور حسنِ فطرت سے سیراب کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس منصوبے کی تیاری میںبھی حکومتی منصوبہ بندیوں کی طرح معاملات طے کرنے کے لیے کئی میٹنگز کا انعقادہوا۔اگرچہ زیادہ تر میٹنگز کا موقع گذشتہ ماہ ہونے والی دعوتوں اور خاندانی اجتماعات نے فراہم کیا لیکن پھر بھی گاہے گاہے اس سفر کے معاملات پرتبادلہ خیال ہوتا رہا۔مختلف آراء سامنے آتی رہیں اور منصوبے کے خدو خال فائلوں کی بجائے سینوں میں محفوظ ہوتے گئے۔ بہت متحرک اور نوجوان بھائی طاسین سے ٹیلیفونگ رابطہ بھی رہا اور طارق بھائی اینڈ فیملی کا پروگرام بھی ان کی دفتری مصروفیات کے باعث سیف الملوک کے جیپ ٹریک پربھاگتی جیپوں میں لگنے والے ہچکولوں کی طرح اوپر نیچے ہوتا رہا۔میں نے اور عنبرین نے پچھلے سال ٹھیک انہی دنوں میں ہنی مون اسی علاقے میں ایسے ہی خوشگوار موسم میں منایا تھا۔اس کے بعد سے وادی کاغان کا حسن، وادی کے بیچ بل کھاتالہراتا دریائے کنہار ، ناران کی جھیلیں اوربلندوبالا چوٹیوں کی صحبتوں میںکسی خواب جیسے گزرے شب و روزاور بلندو بالا پہاڑ اور اشجار کے مناظر مسلسل یاد آ تے رہے۔ہمارا ارادہ تو تھا کہ جون جولائی میں وہاں کی سیر کی جاتی لیکن ایک تو کچھ مصروفیات ایسی رہیں دوسرااس بار ارادہ تھاکہ کچھ اورقریبی عزیزوںکو بھی ساتھ لے کرچلا جائے اور انہیں بھی اس سفر کی خوبصورتیوں اور کلفتوں میں شریک کیا جائے۔میرااس علاقے کا یہ چوتھا چکر تھا ۔لاہور کی گرمی اور شہر کی ہائو و ہو سے میلوں دور شمال میں ان قدرتی اور خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونا کسی نعمت سے کم نہیںاورسونے پہ سہاگہ وہ یخ بستہ ماحول تھا جو یہاں کبھی دسمبر جنوری میں ہی میسر آتا ہے ۔ہمارا قافلہ اپنے سالار صلاح الدین انکل کی قیادت میں روانہ ہوا۔لاہور سے چلنے والے اس قافلے میں ہم دونوںحسن ابدال سے شامل ہوئے اور قافلہ جمعرات کی صبح شاہراہ قراقرم پر روانہ ہو گیا۔ہم نے اپنی گاڑی وہیں چھوڑی اور قافلہ سالار کی گاڑی میں خالی جگہ پر کرتے ہوئے براجمان ہوگئے، جہاں ہماری آنٹی مسز نزہت صلاح الدین اور بھائی متین صلاح الدین بھی تھے ، متین نے ڈرائیونگ کی خدمات بھی سرانجام دیں اورہر نئے منظر کی طرف ہمکتے دل ونگاہ پر سزا یا یوں کہیے ڈرائیونگ کی خدمات کا صلہ آنٹی سے مسلسل وصول کیا،صد شکر کہ ہم ان کی عنایت سے خاطر خواہ حد تک محفوظ رہے، میں ویسے بھی خطرے کی بو سونگھ کر توپوں کا رخ بلکہ دہانا عنبرین کی طرف موڑنے کی کوشش کر تا ہوں اور اکثر کامیاب رہتا ہوں، اللہ کرے آئیندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے، یقینا باقی متاثرین بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہوں گے ۔متین کا مشاہدہ بہت کمال ہے ،ہر موڑ اور ہر منظرجیسے اس کے اندر اتر رہا تھا۔وہ پتھروں اور چٹانوں کے رنگوں سے لطف اندوز ہی نہیں ہو رہا تھابلکہ وہ اُن کے رنگوں کے مشاہدے سے ان کے پس منظر میں چھپے معدنی خزانوں کا اندازہ بھی لگا رہا تھا اورسب مشاہدات ہم سے بالخصوص اپنے ابا سے شئیربھی کر رہا تھا،اس اشتیاق اور با معنی گفتگو نے سفر کومزید پر لطف بنا دیا تھا ۔ناران تک یہ سفر کتنے وقت میں طے ہوتا ہے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اس سفر کے ہر راہی کے پاس مختلف ہے۔اسلام آباد سے 8سے 10 گھنٹے سمجھ لیں،سڑکیں کافی بہتر ہیں لیکن اس سفرکی ایک بڑی مشکل ایبٹ آباد شہر کے اندر سے گزرنے والی سڑک پر روزانہ کا ٹریفک جام ہے۔یہ تو جیسے معمول بن چکا ہے اس میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو وہ وہاں سے گزرنے والے لوگوں کی خوش قسمتی یا بدقسمتی کی وجہ سے دو چار گھنٹوں کی کمی بیشی کی صورت میں، ورنہ اس مصیبت سے مکمل طور پر بچائوکی کوئی صورت نہیں۔جاتے ہوئے ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا اور خوش قسمتی سے صرف گھنٹہ بھر کی کوفت ہی برداشت کرنا پڑی وہ بھی عید کے تیسرے دن اور ناران میں سیاحت کے سیزن کے اواخر کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ،لیکن اس کا سارا خسارہ واپسی پر پورا ہوگیا۔کئی گھنٹوں کی اذیت کے بعد جب چوک میں پہنچے تو دیکھا کہ ٹریفک پولیس والے سب ایک ہی پوائنٹ پر اکٹھے ہیں ،وہ کانوں سے وائرلیس لگائے فضول ادھر ادھر گھوم رہے ہیں تھے حالانکہ ان میں سے آدھے بھی اگر آگے پیچھے لائنوں کے اندر جا کے یا بیچ کے کراسز پر ٹریفک کنٹرول کرتے تو صورت حال اتنی بھیانک نہ ہوتی ۔دوسری گاڑی میں، پیارے بچے، ارمہ ، شمل، رائم ، آپا مسز افشین طارق،اور طاسین ، طارق بھائی کی قیادت میں ہمارے ساتھ ساتھ محو سفر رہے۔ایک ننھے سیاح کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اک دو بار رکنا بھی پڑا اور اس کے لیے سب پریشان بھی رہے کہ وہ رائم ہے ہی اتنا پیارا۔چھوٹا سا انٹلکچوئل، جو واقعی کئی انٹل کچولوں سے زیادہ بڑی باتیں کرتا ہے۔اسے بہت کچھ پسند نہیں آ رہا تھا۔اس میں اس کی طبیعت کی خرابی کا عمل دخل بھی تھالیکن گھر سے دور سفر میں اور پردیس میں ایسی کمی بیشی ہو ہی جاتی ہے۔دلچسپ بات یہ کہ اس بچے نے بھی سب خرابیوں کا ذمہ دار وہاں کی حکومت کو قرار دیا،یہ کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ ہمارے ہاںکی جمہوریت ابھی الزامات کی سیاست میں ہی مصروف ہے جس روایت کا فائدہ اس کمسن نے خوب اٹھایا اور سب کو اپنی معصوم باتوں سے محظوظ بھی کیا۔یہ سیر چار دن جاری رہی، اس کا سب سے بڑا اور دلچسپ مرحلہ بابو سر ٹاپ کا سفررہا ،اس سفر کے دوران حیرت انگیز نظاروں نے دل موہ لیا ،ہر موڑ پراچانک آنکھوں کے سامنے کھلتے مناظر، جدارنگوں کے بلند و بالا پہاڑ اور خاص طور پر ان وادیوں کے بیچ دریا کی ہمراہی میں چلتی اوربل کھاتی ہوئی سڑک کسی خوابوں کی دنیا جیسی محسوس ہوئی۔یہ وادیوں کا کوہ در کوہ ایک سلسلہ ہے،ایک وادی سے نکل کر اگلی چڑھائی کا سامنا ہوتا ہے،اس سے گھوم کر اوپر پہنچتے ہیں تو آگے ایک نئی دنیا اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ناران کی 8700 فٹ کی بلندی سے بابو سر کی 13700 فٹ کی بلندی پر جانے کے لیے کوئی 68 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔یہاں کے پہاڑ اپنی چٹانوں میں بھی قوس قزح کے رنگ لیے ہوئے ہیں اور اپنے پیرہن میں بھی سبز، سرمئی، سرخ اورگلابی رنگ سجائے نظر آتے ہیں۔جابجا پگھلتی برف ، بہتے چشمے اور آبشاریں اس سفر کومزید یادگار بنا دیتی ہیں۔بابو سر ٹاپ جسے بابو سر پاس بھی کہتے ہیںسطح سمندر سے 13,691 فٹ بلند ہے۔اس سے آگے چلاس کا مقام ہے جو 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہزاروں فٹ نشیب میں اترتا وہ راستہ ہے جو مانسہرہ سے جدا ہونے والے بالاکوٹ کاغان ویلی کے اس راستے کو دوبارہ شاہراہ قراقرم سے جوڑ دیتا ہے۔وادی کاغان کے اس سب سے بلند ترین مقام تک جانے والا یہ رستہ جولائی سے ستمبر تک عام ٹریفک کے لیے کھلا رہتا ہے تاہم مون سون میں لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے بعض اوقات اس دوران بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ ہمالیہ کا عظیم پہاڑی سلسلہ جو کشمیر سے مانسہرہ اوروادی کاغان سے گزرتا ہے،بابو سر ٹاپ اس کا بلند ترین مقام ہے۔موسیٰ کا مصلیٰ ایک اور بلند چوٹی ہے جس کی بلندی 13,378 فٹ ہے ۔یہ چوٹی بابو سر ٹاپ کی طرف رواں سیاحوں کے ساتھ بار بار آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔یہ اچانک کسی موڑ پر سامنے آتی ہے اورسر پر پڑی سفید برف اور دھوپ آنکھوں کو چندھیاتی ہے لیکن یہ اس کی قامت کو حسن کے ساتھ ایک وقاربھی بخشتی ہے۔ بابو سر ٹاپ سے تھوڑا پہلے بائیں ہاتھ پر نانگا پربت کی طرف اوپر کی طرف اٹھتا اور پھیلتا ہوا میدان بھی انسان کو فطرت اور اس کی رعنائیوں کا اسیر کر دیتا ہے۔یہ جیسے اس وادی کا آغاز ہے، جو اس بلندی سے دھیرے دھیرے نیچے اترتی وادی کا سلسلہ متعین کر رہا ہے۔بابو سر پہنچتے ہی سفر مزید خوشگوار ہو گیا ۔ بلندی پر موجود بادلوں کو جیسے ہماراہی انتظار تھا، چند منٹوں کی برف باری نے مسرور کر دیا ۔اس بلندی پر ہوائیں جو پہلے ہی اپنی ہوا میں تھیںبرف باری کے نتیجے میں مزید برہم ہو گئیں ، کچھ وقت تک توسب نے مقابلہ کیا لیکن آخر کب تک۔سب ایک خیمہ نما ہوٹل میں گھس گئے اور گرما گرم چائے اور پکوڑوں سے سردی کی شدت کم کرنے کی کوشش کی۔سردی اور پہاڑی رستے کے چکروں سے ایسے چکر چڑھے کہ لاہور پہنچنے کے باوجود لگتا ہے ہم ابھی تک وہیں ہیں۔لاہور کے قریب پہنچ کر گاڑی کے اے سی کے یخ بستہ ماحول میں بیٹھے ہوئے انکل فون پر یہاں کے باسیوں کو کان اچھی طرح ڈھانپنے اور گرم کپڑے پہننے کے مشورے دے رہے تھے، جس کا مطلب ہے ہم اپنے دل و دماغ بابو سر پاس کے پاس ہی چھوڑ آئے تھے ۔