توانائی کے جدید ذرائع
اسپیشل فیچر
بچپن میں سائنس کی درسی کتاب میںپڑھا تھا کہ نہ تو ہم انرجی، مثلاً بجلی پیدا کر سکتے ہیں نا ختم کر سکتے ہیں، تاہم اسے کسی ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اُس وقت تو یہ بات کچھ ہضم نہ ہوئی، تاہم آج جدید ٹیکنالوجی کے کرشمے جب سامنے آئے ہیں، تو یہ واضح ہو ا کہ کس طرح انرجی(توانائی) کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آئیے آپ کو توانائی کے کچھ جدید ذرائع سے متعارف کرواتے ہیں:سولر پینلدوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سولر پینل کی مقبولیت آسمانوں پر ہے۔ اس کی وجہ سولر پینل کی دو بڑی خصوصیات، تیز رفتار اور مفت بجلی پیدا کرنا اور پورا دن بغیر رُکے بجلی سٹور کرنا ہے۔ سولر پینل سورج کی شعاؤں کو بجلی میں تبدیل کرتا ہے جبکہ انرجی سٹور کرنے کے لیے اس کے ساتھ ایک بیٹری بھی نصب کی جاتی ہے۔ سولر پینل کا ہر ماڈل قریباً 100 سے 365 واٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ سورج کی شعائیں جنہیں سائنسی لفظوں میں فوٹوز کہا جاتا ہے، سولر پینل کے لیے حد درجہ ضروری ہے۔ اس تمام عمل کو فوٹووالٹک ایفکٹ کہتے ہیں۔ پینل کے بنیادی حصے، یعنی نچلی تہہ کو گھنے فلم سیلز سے بنایا جاتا ہے جبکہ اوپری تہہ کیڈمیم ٹیلورائیڈ اور سیلیکون سے بنی ہوتی ہے۔ سولر پینلز کے بارے کچھ دلچسپ معلومات یہ ہیں کہ پوری دنیا میں سولر پاور کے ذریعے 173,000 ٹیراواٹ بجلی مسلسل بنائی جا رہی ہے۔ صرف امریکا میں ہی عام گھریلو استعمال کے لیے سولر پاور سے 3,300 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ سولر پاور بجلی کا ایک اچھا ذریعہ ہے، تاہم کچھ لوکل کوالٹی پینلز سے بجلی بنانے کے اس عمل میں ایک زہریلی گیس خارج ہوتی ہے، جو ماحول کے لیے خطرناک ہے۔ 2011ء میں پورے امریکا میں اس قسم کے پینلز پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ دنیا کا سب سے پہلا سیلیکون سولر سیل 1954ء میں بیل لیبارٹریز نامی امریکی کمپنی نے تیار کیا۔ اپریل 26، 1954ء کے نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلیکون سولر سیل کی ایجاد سے ایک نئے دور کا آغازہوا، جو انسانوں کو ایک نئی دنیا اور بہترین ماحول سے متعارف کروائے گی۔ دنیا میں سب سے پہلے سولر پاور کا استعمال سپیس پراجیکٹس کے لیے کیا گیا کیونکہ خلا میں موجود سیٹیلائٹوں کے لیے سورج کی روشنی سے اچھا بجلی کا ذریعہ اور کچھ نہیں۔ڈیم جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ڈیم بجلی بنانے، شدید برساتی موسم میں سیلابی ریلے سے بچاؤ اور پانی کے ذخیرے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ قدیم کتب کے مطابق ڈیم کا لفظ مڈل انگلش سے نکلا ہے جبکہ بعض روایت کے مطابق یہ لفظ (ڈیم) مڈل ڈچ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ وہ اس طرح کہ قدیم دور میں، جن علاقوں میں ڈچ زبان بولی جاتی تھی، ان میں سے بعض علاقوں کا نام اوب ڈیم، ری ڈیم، ایمسٹر ڈیم اور روٹر ڈیم وغیرہ تھا، تاہم دنیا کا سب سے پہلا ڈیم مڈل ایسٹ میں میسوپوٹامیا کے علاقے میں بنایا گیا تھا۔ اسی طرح دنیا کے اوائل اور تاریخی ڈیموں میں جورڈن کا جاوا ڈیم اور مصر کا سعد الکفارہ ڈیم سرفہرست ہیں۔ قدیم کتب کے مطابق سعدالکفارہ ڈیم مشہور زمانہ دریائے نیل پر بنایا گیا تھا، تاہم دوران تعمیر ایک برساتی ریلے کی وجہ سے 335 فٹ اونچا اور 285 فٹ چوڑا، یہ ڈیم پانی کا دباؤ برداشت نہ کر سکا اور کچھ ہی منٹوں میں تباہ ہو گیا۔ پُرانے وقتوں کا تعمیر شدہ، یمن میں واقعہ گریٹ ڈیم آف ماریب قدیم انجینئرنگ اور فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ ڈیم 1700اور 1750 بی سی کے درمیانی عرصے میں ہی معرض وجود میں آیا۔ اس کے بعد کئی صدیوں تک یہ ڈیم قائم رہا اور کئی ماہر انجینئرز کے ہاتھوں مرمت ہوتا رہا، تاہم صبا کی بادشاہت کے بعد یہ ڈیم ملکۃ حیمر کے قبضہ میں آ گیا۔ اس عرصہ میں ڈیم کی مرمت کے ساتھ ساتھ اونچائی میں 46 فٹ کا اضافہ کیا گیا۔ اسی طرح تیسری صدی کی شروعات یعنی آج سے قریباً 2307 سال پہلے ہندوستان کے علاقہ ڈھولاویرا میں پانی کے ایک پیچیدہ مسئلے کے حل کی صورت میں کئی ڈیموں کا ایک مجموعہ تیار کیا گیا۔ ان کا کام پانی جمع کرنا اور ذخیرہ کرنا تھا۔ آج کے ڈیموں کی بات کی جائے، تو دنیا کا سب سے بڑا ڈیم چائنہ کے دریا ینگٹز پر تعمیر کیا گیا ہے جبکہ اس ڈیم کا نام سین اخسیاں ہے۔ بقول چائنیز انجینئرز اس ڈیم کی آوٹ پٹ 22,500 میگا واٹ ہے، یعنی صرف اسی ڈیم کی پیدا کردہ بجلی سے پورے پاکستان کی بجلی کی کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ دوسرے نمبر پر برازیل اور پیراگوے کے درمیان واقعہ ایٹائپو ڈیم ہے، جس کی آوٹ پٹ 84 بلین کلو واٹ فی گھنٹہ ہے اسی طرح پاکستان میں دریائے سندھ پر واقعہ تربیلا ڈیم رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے جبکہ ساخت اور حجم کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کی اونچائی 485 فٹ ہے اور یہ 250 سکوئر کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعمیر 1976ء میں مکمل ہوئی۔ شروعات میں یہ 3,478 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا تھا جبکہ نئی ایکسٹینشن کے اندراج سے اس کی آؤٹ پٹ بڑھ 6,298 میگا واٹ ہے۔ونڈ پاور ٹربائن ڈیم اور ونڈ پاور ٹربائن کے کام کرنے کا طریقہ یکسر ایک سا ہے، تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ ڈیم میں بجلی پانی سے پیدا ہوتی ہے جبکہ ونڈ ٹربائن میں ہوا استعمال کی جاتی ہے۔ ہوا چلنے پر بڑے بڑے پنکھے گھومتے ہیں، جس سے جنریٹر حرکت میں آ جاتے ہیں اور بجلی بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، تاہم ونڈ ٹربائنز کو کچھ خاص مقامات پر لگایا جاتا ہے، جہاں ہوا کی رفتار تیز ہو اور ہوائی بہاؤ زیادہ تر جاری رہے مثلاً پہاڑوں پر، کھلے مقامات پر یہاں تک کے سمندر کے عین وسط میں نصب کیے جاتے ہیں۔ کسی قسم کی پیچیدگی سے پاک اور سالہا سال چلنے والا یہ ونڈ ٹربائن بجلی کا سستا اور بہترین ذریعہ ہے۔ ونڈ پاور فوسل فیولز کو جلانے اور ان سے پیدا ہونے والی گیسز سے بچاؤ کا بہترین اور بھرپور ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں ان ٹربائنزکی مانگ بڑھ رہی ہے۔ 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق ڈنمارک پورے ملک کی قریباً 40 فیصد بجلی ونڈ پاور سے پیدا کرتا ہے جبکہ پوری دنیا میں 83 ممالک ایسے ہیں ،جن کی بجلی کا ایک بڑا ذریعہ ونڈ پاور ہے۔ 2014ء کی شماریات کے مطابق پوری دنیا میں 16 فیصد بجلی ونڈ پاور سے پیدا کی جاتی ہے، جو بڑھ کر 20 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی بجلی پیدا کرنے والی ونڈ مل کا کامیاب تجربہ 1887ء میں سکاٹ لینڈ میں کیا گیا۔ زمانۂ قدیم میں اس منفرد اور لاجواب ایجاد کو پروفیسر جیمز بلیتھ اور اینڈرسن کالج نے متعارف کروایا۔ آج دنیا کی سب سے بڑی ونڈ ملز چائنہ، امریکہ، انگلینڈ، انڈیا اور رومانیہ میں قائم ہیں۔ ونڈ ٹربائن کے بارے کچھ دلچسپ حقائق یہ کہ پُرانے زمانے میں ان کا استعمال پانی پمپ کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ آج کی ونڈ ٹربائن بہت ہی زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ اس کے قریباً 8,000 مختلف حصے ہوتے ہیں، لیکن اس کے کام کا طریقہ کار بہت سادہ ہے۔ ونڈ ٹربائن کی اونچائی زیادہ تر 260 فٹ تک ہوتی ہے، یعنی سٹیچو آف لیبرٹی سے بھی زیادہ۔ دنیا کے سب سے زیادہ ونڈ ٹربائن امریکا میں بنائے جاتے ہیں۔ امریکا میں ونڈ پاور 19 ملین گھروں کو بجلی مہیا کرتی ہے۔ ٭…٭…٭