بلوچستان کا نقاش، عطا شاد
اسپیشل فیچر
کسی زبان کی تاریخ میں اس زبان کے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔بلوچی ادب میں عطا شاد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ نہ صرف بلوچی زبان کے شاعر تھے بلکہ انھوں نے اردو زبان میں بھی شاعری کے جو ہر دکھائے۔سنگانی سر،کیچ،مکران بلوچستان میں 1939 میں پیدا ہونے والا یہ شاعر بلوچی زبان کا ایک مشہور شاعر ہے۔عطا شاد نے ابتدائی تعلیم تربت میںحاصل کی ، میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول پنجگور سے جب کہ انٹر اور بی اے گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے کیا۔عطا شاد نے 1955 میں شعر کہنے شروع کیے۔’’سنگاب ‘‘اور ’’ برفاب‘‘ ان کی اردو شاعری کے مجموعے ہیں۔جب کہ ’’روچ گر شب‘‘،سحارا،اور ’’ندیم‘‘ ان کے بلوچی مجموعے ہیں۔عطا شاد کا ایک اہم ترین کام ان کی ’’ اردو بلوچی لغت ‘‘ہے ۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’ہفت زبانی لغت‘‘ میں حصہ بلوچی کے لیے بھی کام کیا ہے۔عطا شاد کو ان کی ادبی خدمات کے صلے میں 1983ء میں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی ، جب کہ 1992ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔عطا شاد کی شاعری قدیم و جدید کا ایک سنگم نظر آتی ہے۔ان کی شاعری کئی رنگوں کی کہانی ہے مگر یہ رنگ قوس و قزح کے نہیں ہیں،عطانے پہاڑوں ، وادیوں، صحراوں کو رنگ بدلتے دیکھا ہے یہ انھی رنگوں میں نہائی ہوئی شاعری ہے۔عطا کی شاعری میں بلوچستان کی سر زمیں سے ان کا دلی لگائو ایک ایسے منظرکی صورت میں ابھرا ہے جو شہروں،دیہاتوں ،باغوں اور حدِ نظر تک پھیلے سر سبز اور شاداب کھیتوں کا منظر نہیںبلکہ ایک ایسی سنگلاخ سر زمین کا منظر ہے جو گرمیوں میں تپ جاتی ہے اور سردیوں میں یخ ہو جاتی ہے۔ عطا حرارت،روشنی اور حرکت کے شاعر ہیں۔ان کی شاعری میں ایک سلگتا ہوا شاعر نظر آتا ہے اورشاعری میںایک الاو دہکتا ہوا نظر آتا ہے۔عطا سے بات کرو ،چاندنی سی،شبنم سیخنک نظر ہے مگر دل الاو رکھتا ہےآگ سے متعلق بے شمار الفاظ ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں ؛راکھ ، شعلہ ، شرر ، سورگ ، چتا ، دھوپ ، کرن ، شعاع ، آفتاب ، آگ ، آتش کدہ ،آتشیں ، آتش گاہ ، خورشید ، خاک ، دوزخ ، برق، شرا ر وغیرہ۔ان کی شاعری میں جلنا ،پگھلنا ،راکھ ہونا ،لپکنا ،بجھنا وغیرہ کے الفاظ بھی نظر آتے ہیں۔آج پھر شام کی چتاوں میںجل رہا ہے کوئی جواں سورجعطا شاد نے اپنے خوش گوار علمی،ادبی اور شعری سفر میں بلوچستان کو عالمی منظر نامے پر روشناس کروایا۔عطا شاد کی شاعری میں ایک ایسے معاشرے کا خواب نظر آتا ہے جہاں غربت،افلاس اور ناانصافی نہ ہو۔ان کی شاعری میں مزاحمتی لب و لہجہ نظر آتا ہے۔عطا شاد کو اردو اور بلوچی شاعری کے درمیان ایک پل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔وہ شاعروں کی اس پود سے تعلق رکھتے تھے جن کا تعلق ساٹھ کی دہا ئی سے تھا۔یہ دور ترقی پسند تحریک کے اختتام کا دور تھا۔ان کی شاعری حقیقی بلوچی کلچر کی عکا سی کرتی ہے۔ان کی نظمیں’’مہناز‘‘، ’’شہ مرید اور ہانی‘‘،’’وفا‘‘ اور ’’لوری‘‘بلوچی ثقافت کے مختلف پہلوئوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ان کی شاعری میں بلوچستان کے پہاڑ ،سنگلاخ چٹانیں ،تپتے ہوئے صحرا کی عکاسی بھرپور انداز میں موجود ہے۔عطا شاد نے اپنی شاعری میں وسیع تخیل، بلوچی کے ذخیرہ الفاظ اور تراکیب کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ان کا بلوچی ذخیرہ الفاظ، حساس انداز ،جدیدبلوچی ادب میںبنیادکی حیثیت رکھتا ہے۔وہ قبائلی نظام کے خلاف تھے جس کی عکاسی ان کی نظم و نثر میں نظر آتی ہے۔وہ نہ صرف شاعر تھے بلکہ مصنف ، ڈرامہ نگار اور مترجم بھی تھے۔بلوچی زبان کا یہ نام ور شاعر 1997ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔صورت سے ہو گل برف سہی پھر بھی عطا شادتاثیر میں وہ مشک کی پہچان ہی رہ جائے٭…٭…٭