بچوں کیلئے سیر وتفریح اہم
اسپیشل فیچر
انسا ن کسی بھی عمر میں ہو سیرو تفریح کا دلدادہ ہو تا ہے۔ موقع ملنے کی دیر ہے ۔ اصل میں یہ شوق بچپن سے ہی پروان چڑھنا شروع کر دیتا ہے اور بچوں کی اہم ترین خواہش ہی یہ ہوتی ہے کہ اُنکو کھیلنے اور سیر و تفریح سے روکا نہ جائے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ کہیں تفریح پر جائیں تو اُس وقت بچوں کو اپنے ساتھ لیکر جائیں اور کسی دوسرے کے ساتھ بھیجنے سے گھبراتے ہیں۔ لیکن اسکول میں تعلیم کے دوران غیر نصابی سرگرمیوں میں پکنک و مختلف مقامات پر سیر کے پروگرام بھی ترتیب دیئے جاتے ہیں تاکہ بچے کو زندگی کے عملی تجربات کیلئے بھی تیار کیا جاسکے ۔ولید کے اسکول میں بھی 6ویں جماعت سے 10ویں جماعت کیلئے چوبیس گھنٹے کا ایک تفریحی پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں لاہور سے اسلام آباد جانا بھی شامل تھا۔ اُس نے اور اُسکی بہن امل نے گھر والوں سے اجازت مانگی ۔ لیکن حسب ِمعمول جس طرح والدین اس قسم کے پروگرام سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہو ئے انکار کر دیتے ہیں۔اُنھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ واقعی یہ بڑا حیران کُن ہے کہ آج ہی نہیں بلکہ ماضی میں بھی جب بچوں نے والدین سے اسکول والوں کے ساتھ جانے کی اجازت مانگی پہلی دفعہ \"نہ\" کا ہی سامنا کرنا پڑا۔ پھر بچوں کی ضد آڑے آ جاتی اور اجازت بھی مل جاتی ۔ ولید ،امل اور اُنکے دوستوں احمد علی ،احمد سرفراز ،عبدالرحمن ،آنس،مریم ،فاطمہ اور نمرہ وغیرہ کو بھی آخر کار اجازت مل گئی اور جمعہ کی رات دس بجے وہ سب اور باقی بچے اسکول پہنچ گئے۔پروگرام کے مطابق پہلے اسکول انتظامیہ نے رات کو گرائونڈ میں\" بون فائیر\" کروا کر بچوں کو دوستانہ ماحول میں لطف اُٹھانے کا موقع دیا جس میں کچھ فاسٹ فوڈ کا اہتمام بھی تھا۔ پھر رات ایک بجے اُنھیں کہا کہ کچھ آرام کر لیں۔ جس کے بعد صبح ساڑھے تین بجے چار لگثری کوچز آگئیں۔جن میں ذمہ دار اسکول اسٹاف نے بچوں کو بیٹھنے کیلئے کہا۔لڑکوں کیلئے الگ اور لڑکیوں کیلئے الگ ا نتظام تھا۔ولید اور امل اگلی رات ساڑھے بارہ بجے اپنے والد کے ساتھ گھر پہنچے تو ولید تھکا ہوا تھا اور آنکھوں میں نیند تھی لیکن کہہ رہا تھا ہم نے بہت مزہ کیا! بہت مزہ کیا! آپ سُنیں۔مجھ سے سُنیںکہ ہم نے کیا کِیا اور کہاں گئے؟ گھروالوں نے کہا بیٹا سو جائو صبح اتوار ہے سن لیں گے۔ولید اُس رات شاید یہ سوچتے ہی گہری نیند سو گیا کہ وہ صبح کہاں سے سُنانا شروع کرے گا؟ولید سُنا رہا تھا پہلے اُنکی بسیں بھیرہ رُکیں جہاں کچھ وقفہ و ناشتہ کر نے کے بعد اسلام آباد کی طرف چل دیئے۔ پہلے تو بچے بس میں سوئے رہے لیکن پھر جاگنے کے بعد کسوٹی وغیرہ کھیلتے ہوئے اسلام آباد کے مقام \" راول لیک ویو پارک\" پہنچ گئے۔ ٹیچر نے بتایا کہ یہ مری روڈ پر واقع تفریحی اور وائلڈ لائف پارک ہے۔وہاں بچوں نے بہت مزہ کیا خوبصورت پرندے و جانور دیکھے اور اسکے علاوہ راول لیک میں کشتی سواری کی خواہش بھی ظاہر کی لیکن اسکول کا ذمہ دار اسٹاف نہ مانا۔بہت خوبصورت جگہ ہے۔وہاں سے بچے بس میں بیٹھے اور پہنچے \"لوک ورثہ عجائب گھر \"۔ٹیچرز نے بتایا یہاں دیہی و روایتی زندگی سے تعلق رکھنے والی چیزیں رکھی گئی ہیں ۔ وہاں مٹی سے بنی ہوئی چیزیں و برتن ،بُت ، تصاویر اور ٹیکسٹائل کی بنی ہوئی چیزوں کی نمائش لگی ہوئی تھی اور پکنک کیلئے بھی خوبصورت جگہ لگی۔ دوپہر ہو گئی تھی اور چل چل کر بھوک لگ چکی تھی لہذا سب بچوں کو کھانا دیا گیاجس کے دوران بچے کھانا بھی کھاتے رہے اور ایک دوسرے کو چھیڑ چھاڑ بھی کرتے رہے۔وہاں سے شکر پڑیا ں میں واقع پاکستان قومی یادگار (پاکستان نیشنل مونومنٹ( گئے۔ وہاں قائد ِاعظم ، فاطمہ جناح اور پاکستان تحریک کی اور بہت سی مشہور شخصیات کے مومی مجسمے ہیں جو دیکھنے میں بہت اچھے لگتے ہیں۔آخر میں فیصل مسجد گئے ۔ایک بچے نے نماز پڑھنے کیلئے وضو کیا تو اُسکو دیکھ کر باقی بچوں نے بھی نماز پڑھنے کیلئے وضو کر لیا ۔مِل کر نماز پڑھی اور اُ س وقت تک سب بچے تھک بھی چکے تھے۔6بجے ٹیچرز نے کہا کہ اب اسلام آباد سے لاہور واپس جانے کیلئے بس میں سوار ہو جائو۔ ایسے تھکے تھے کہ پھر زیادہ تر بچے لاہور پہنچ کر ہی جاگے۔٭…٭…٭