افغان’’پاوندے‘‘ ماضی سے حال تک
اسپیشل فیچر
افغانستان اور پاکستان کے پشتون بیلٹ میں کوچیان یعنی خانہ بدوش ان گروہوں کو کہتے ہیں جو اپنے گھروں اور مال کے ساتھ سترویں، اٹھارویں اور انیسویں صدی کے وسط تک غزنی، پکتیکا، پکتیا، زابل، قندھار، وسطی ایشیا، بخارا اور سمرقند اور اسی طرح ایران کے مشہد اور اصفہان اور کراچی، ممبئی اور کلکتہ تک اپنے اونٹوں، گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ اور یہ ہمیشہ سفر میں ہوتے ہیں۔ لیکن اب ان پاوندوں کا سفر پاکستان اور افغانستان تک محدود ہوگیا ہے۔خانہ بدوشوں کی زندگی بہت مشکل اور کٹھن ہوتی ہے ، خانہ بدوش عمومی طور پر سردیوں میں گرم علاقوں اور گرمیوں میں ان علاقوں کی طرف جاتے ہیں جہاں سبزہ و گھاس زیادہ مقدار میں ہو۔ جہاں ان کے مویشیوں کی چراگاہیں بھی موجود ہوں۔ خانہ بدوشوں کی اپنی کوئی زمین نہیں ہوتی اور نہ ان کا مستقل کوئی گھر ہوتا ہے، نہ کوئی اور آسائش ان کو میسر ہے؛ سوا ئے چند پھٹے پرانے خیمے جنہیں پشتو میں ’’کیدی‘‘ کہتے ہیں۔یہ خیمے خالص اون سے بنائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ خیمے سردیوں میں بہت گرم ہوتے ہیں۔ بھیڑ بکریاں اور اونٹ ان کا سب کچھ ہے۔ خانہ بدوش افغانستان سے خشک میوہ جات اور بہت سی دوسری اشیا اوپر ذکر کیے گئے علاقوں تک لے جاتے تھے اور ان علاقوں سے ضرورت زندگی کی کچھ اور اجناس مثلاً ریشم، کپڑے، مصالحہ جات اور دیگر اشیا افغانستان تک لے کر آتے تھے۔یہ پاوندے مختلف راستوں کو اپنی تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے ایک گروہ غزنی سے قندہار کے راستے ژوب اور کاکڑ قبائل کے راستے درہ گومل سے ڈیرہ اسماعیل خان اور دوسرا گروہ جب وسطی ایشیا تک جاتا تو وہ اپنے سفر کا آغاز قندھار سے کرتا۔ پہلے وہ ہرات اور پھر ترکمانستان کے مروی راستوں کے ذریعے سمرقند اور بخارا تک پہنچ جاتے تھے۔یہ پاوندے سوداگر اور بہت لڑاکو تھے۔ یہ اپنے ساتھ مسلح افراد کے جتھے بھی لے جاتے تھے، تاکہ راستے میں راہزن ان کے مال لوٹ کر نہ جائیں اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ اس طرح وہ اپنے ساتھ خطرناک قسم کے کتے بھی لے جاتے، جو ان کے مویشیوں کی حفاظت کے لیے ہوتے تھے۔ ان پاوندوں کا ایک گروہ تقریباً دو ہزار افراد پر محیط ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پورے افغانستان میں مسلح پاوندوں کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی۔جب برصغیر پر فرنگیوں کی حکومت تھی تو یہ پاوندے انگریزوں کے زیرسایہ علاقوں میں آتے تو انگریز ان پاوندوں کو غیر مسلح کردیتے تھے۔ جب پاوندے ہندوستان سے واپس افغانستان کا رخ کرتے تھے تو اسے اسلحہ واپس کردیتے تھے۔ انگریز حکومت نے پاوندوں پر ٹیکس بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ یہ پاوندے خلجی اور درانی دو گرپووں میں تقسیم ہیں۔ خلجی خانہ بدوش قبائل میں احمدزئی، سلیمانخیل، خروٹی، اندڑ، الیاس خیل، ترہ کئی، دوتانی، ملاخیل، نیازی اور اکاخیل وغیرہ قبائل شامل ہیں۔ اسی طرح درانی قبائل سے اچکزئی، اسحاق زئی، نورزئی، علیزئی اور دیگر درانی قبائل شامل ہیں۔افغانستان اور پاکستان میں خانہ بدوشوں کے آنے جانے کی راستے خانہ بدوشوں نے متعین کر رکھے ہیں، وہ ان علاقوں سے گزرتے ہیں جہاں پانی موجود ہو۔ مویشی بھی خانہ بدوشوں کا ذریعہ معاش ہیں۔ جب خانہ بدوش شہروں کے قریب پڑاؤ ڈالتے ہیں تو وہ شہر میں دودھ، دہی اور قروت بیچنے کے لیے بازار کا رخ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اون، مویشیوں کی کھالیں بھی بیچنے کے لیے شہر کے بازار میں لے جاتے ہیں۔ تیس سال قبل افغانستان کی ایکسپورٹ میں مویشیوں کی کھالوں کا ایک اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ لیکن خانہ جنگی اور امریکی یلغار کی وجہ سے بہت سے خانہ بدوشوں نے خانہ بدوشی ترک کی اور وہ پاکستان ایران اور افغانستان کے مختلف علاقوں ہزارہ جات، بادغیس، قندھار، جوزجان، سرپل، مزارشریف اور اسی طرح بغلان، قندوز، تخار، کنڑ، بدخشان اور اسی طرح پاکستان کے پشتون بیلٹ جن میں پشین،ژوب، کوئٹہ، سبی، ھرنائی، موسیٰ خیل، لورالائی کے علاوہ خیبر پختونخواہ، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں کھالوں کی ایکسپورٹ میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔افغانستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے خانہ بدوشوں کی زندگی پر بہت سے منفی اثرات پڑے ہیں۔ افغانستان میں روسی یلغار کی وجہ سے ان کی چراگاہوں اور ان کے آنے جانے کے راستوں اور ان کے خیموں پر بمباری کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سے خانہ بدوش اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ افغانستان کے صوبے میدان وردگ میں خانہ بدوشوں کے آنے جانے پر ہزارہ برادری نے پابندی عائد کی ہے۔ اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے حکمرانوں نے خانہ بدوشوں کے ساتھ بہت ناروا سلوک روا رکھا ہے۔ انھیں معاشرتی، سیاسی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ان حکومتوں نے خانہ بدوشوں کے لیے صحت کے مراکز قائم نہیں کیے ہیں۔دوسری طرف ان خانہ بدوشوں میں تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان حکومتوں نے ان کے معصوم بچوں کے لیے کوئی جامع پلان ترتیب نہیں دیا ہے۔ ان کے رہنے کے لیے کوئی ہوم پلان نہیں بنایا ہے۔ ان کے مویشیوں اور ان کے پالتو جانوروں کے علاج کے لیے بھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں خانہ بدوش ہمیشہ تحقیر کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی تعداد پاکستان اور افغانستان میں تقریباً چار ملین کے قریب ہے۔ افغانستان میں حامد کرزئی رجیم کے آنے پر خانہ بدوشوں کو کچھ حقوق ضرور دیے گئے، مثال کے طور پر افغان پارلیمنٹ میں خانہ بدوشوں کے لیے دس نشستیں مختص کی گئیں اور ایک سو پچیس درس گاہیں بھی تعمیر کی گئیں جن میں چوراسی سکول بنیادی تعلیم کے لیے اور باقی ہائی سکول ہیں، کچھ دارلحافظ بھی ہیں جن میں اڑتیس ہزار بچے اور بچیاں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن چار, ملین آبادی پر یہ شرح بہت کم ہے۔