قمار بازی…ایک لعنت
اسپیشل فیچر
جواء یعنی قماربازی ہمارے دین میں گناہ ِ کبیرہ کی ہے اور اس سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔جوا معاشرتی طور پر کئی بیماریوں اورجرائم کی بنیاد ہے ۔اس کی وجہ سے کئی زندگیاں تباہ ہو ئیں اور کئی خاندان اجڑ گئے۔یہ ایک ایسا قبیح مقابلہ ہے جس میں مختلف لوگ کسی واقعہ ،بات یا کھیل کے نتیجے پر شرط لگاتا ہے اور یہ شرط عام طور پر نقد رقم کی شکل میںہوتی ہے۔شرط اور اس پر لگائی گئی رقم کا فیصلہ اس واقع کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے۔ جوئے خانے کے نام سے ہمارے ذہن میں بدمعاشوں کا ایک ایسا اڈہ آتا ہے جہاں بد قماش لوگ آ کر جواء کھیلتے ہیں۔ مہذب دنیاکے جوئے خانے حسنِ تعمیر، رنگ و روشنی اور آرائش و زیبائش میں عالیشان محلات کو بھی پیچھے چھوڑدیتے ہیں۔جہاں امیر طبقوںکی بگڑی ہوئی نسل پیسہ جیتنے اور لٹانے آتی ہے۔ مختلف سکیموں کے ناموں پر غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔جوئے میں صرف قسمت کی بنیاد پر بہت سے لوگ رقم لگاتے ہیں۔ جن کی قسمت یاوری کرتی ہے انہیں اپنے حصے سے کہیں زیادہ رقم مل جاتی ہے جبکہ باقی لوگوں کی رقم ڈوب جاتی ہے۔ اب وہ کاروباری لوگ جنہیں میڈیا کے ذریعے سے عوام کے بہت بڑے گروہ تک رسائی حاصل ہے، میڈیا اور کمیونیکیشن کی جدید سہولیات کا فائدہ اٹھاکر انعام کے نام پر عوام الناس کو جوئے میں شریک کرلیتے ہیں۔ اس عمل میں راتوں رات امیر بن جانے کے خواہشمند کسی ایسے سوال کا جواب ٹیلیفون کے ذریعے دیتے ہیں جس میں پانسہ پھینکنے سے زیادہ محنت اور صلاحیت درکار نہیں ہوتی۔ مثلاً پاکستان کے کتنے صوبے ہیں؟ یہ فون کال عام نرخ سے زیادہ مہنگی ہوتی ہے۔ یہ گویا اس ’جواری‘ کی لگائی ہوئی رقم ہوتی ہے جو ’جوئے خانے‘ والے وصول کرتے ہیں۔ میڈیا کی وسیع تشہیر کی بنا پر لاکھوں ’جواریوں‘ کی لگائی ہوئی اس رقم میں سے کچھ حصہ انعام کے نام پر بذریعہ قرعہ اندازی جیتنے والے چند ’جواریوں‘ میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ جبکہ بقیہ رقم ’جوئے خانے‘ والوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ رقم کم ہونے کی بنا پر ہارنے والوں کو بھی دکھ نہیں ہوتا اور وہ ہر دم نیا پانسہ پھینکنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس امید پر کہ کبھی نہ کبھی تو قسمت ان پر مہربان ہوگی۔ یہ ہے دورِ جدید کا ہمارا جوا جس میں انعامی مقابلے کے نام پر تکنیکی طور پر مطمئن کرنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر ہر صاحبِ بصیرت جانتا ہے کہ نام بدل دینے سے جوئے کی روح ختم نہیں ہوئی ۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں روپے پیسے اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے معاشرے کو بانٹ کے رکھ دیا ہے۔امیر غریب میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔یہی وجہ ہے کے لوگ راتوں رات امیر بننے کے چکروں میں جوئے کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔دورِحاضر میں بہت سے معاملات ہیں جن میںجوئے ، یاجوئے کی آمیزش پائی جاتی ہے ان کا مختصرجائزہ پیشِ خدمت ہے۔انعامی کوپن اسکیم کچھ عرصے سے بہت سی کمپنیاں اپنے ناقص سامان کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے مختلف اسکیمیں بنا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنی مصنوعات کے ہرپیکٹ میں ایک سے پانچ یا سات تک کوئی ایک نمبر ہوتا ہے، لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ یہ نمبر پورے جمع کر لیں تو انھیں نقدانعام یا کوئی اور قیمتی چیز بطور انعام دی جائے گی۔ انعام حاصل کرنے کے لالچ میں لوگ بلا سوچے سمجھے ناقص اور صحت کے لیے نقصان دہ چیزیں خریدتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک طرف تو یہ اپنی محنت کا پیسہ برباد کرتے ہیں اور دوسری طرف بعض اوقات اپنی صحت کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ انعامی اسکیم غریب و نادار لوگوں کے ساتھ ظلم ہے اس اسکیم کو کمپنی کی طرف سے انعامی کوپن کا بڑا دل کش نام دیا جاتا ہے۔ اس اسکیم و کاروبار کا خلاصہ خرید و فروخت بشرطِ انعام ہے اور شرعاً ایسی خرید و فروخت ناجائز ہے، جس میں کوئی ایسی شرط لگائی جائے جس میں فریقین میں سے کسی ایک کا نفع ہو۔ بند ڈبوں کی تجارت بازاروں اور نمائشوں میں مختلف مالیت کے بند ڈبے فروخت کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں ایک پیسے کا بھی مال نہیں اور کسی میں زیادہ مال ہوتا ہے۔ لوگ اس کو قسمت آزمائی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی کھلی ہوئی قمار بازی اور جوا ہے، اس لیے یہ ناجائز و حرام ہے۔گاہکوں کے لیے ترغیبی انعام دورِحاضر میں سود اور قمار کے نت نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ ان میں بعض تو ظاہر و باطن ہر دو اعتبار سے قمار ہیں، جب کہ بعض میں صرف اس کا شائبہ پایا جاتا ہے، نیز کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن میں نہ تو سود ہے اور نہ قمار، البتہ اس کے اندر قمار کا جذبہ کار فرما ہے۔ان ہی میں سے وہ رواج ہے جو آج کل چل پڑا ہے کہ جب مارکیٹ میں سامان پہنچ جاتا ہے تو جس سامان کی قیمت، مثلاً 100روپے سے اوپر ہوتی ہے، اس میں خریدار کو اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے وہ سامان کی قیمت فی صد سے کم ادا کرے یا پوری قیمت ادا کر کے انعامی کارڈ لے لے۔ انعامی کارڈ لینے کی صورت میں جو چیز کوپن سے نکل آتی ہے وہ چیز اسے فوراً مل جاتی ہے اور انعام میں کوئی نہ کوئی سامان ہوتا ہے۔ خریداری کی اس صورت میں چوں کہ بیع اور ثمن دونوں متعین کردہ ضابطے کے مطابق انعام میں دیتے ہیں ، اس لیے یہ صورت جائز اور درست ہو گی۔ یہ تو مسئلے کا ظاہری پہلو ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کاروبار کے اس طریقے کے پیچھے قمار ہی کا ذہن کار فرما ہے۔ اس لیے ایسے معاملے کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ آپ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے لیے پریشان ہیں اور کوئی آپ کو ایک ایسے رشتے کے بارے میں بتائے جو ہر اعتبار سے موزوں اورہم پلہ ہو تویقیناً آپ بہت خوش ہوں گے۔ لیکن بات چیت کے دوران میں اگر آپ کو علم ہوجائے کہ لڑکا جواری ہے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا۔ بلاشبہ آپ کی خوشیوں پر اوس پڑجائے گی۔ آپ اگر اس سوسائٹی کے ایک نارمل شخص ہیں تو فوراً اس رشتہ سے انکار کردیں گے۔ خواہ اس کے بعد اپنی بچی کو مزید کچھ عرصے کے لیے گھر میں بٹھا کر رکھنا پڑے۔آپ ایسا کیوں کریں گے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ جوا ہمارے مذہب میں بڑا گناہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ایک شدید درجے کی معاشرتی برائی ہے۔٭…٭…٭