ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا اُردو کے منفرد شاعر منیر نیازی کی 10ویں برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
اسپیشل فیچر
بیسویں صدی میں اُردو کے جن شعرا نے اپنی الگ شناخت بنائی اور لوگوں کو حیران کیا، اُن میں منیر نیازی کا نام سرفہرست ہے۔ فیض احمد فیضؔ نے بھارت کے مشہور نقاد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ سے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ منیرؔ نیازی وہ شاعر ہے، جس کا اپنا ہی رنگ ہے۔ اس بات سے اختلاف تو نہیں کیا جا سکتا ،لیکن اگر غور سے جائزہ لیا جائے، تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ منیر ؔنیازی کی شاعری کے کئی رنگ ہیں اور وہ ہر رنگ میں اپنی انفرادیت کے انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں۔ اُن کے شعری مجموعوں میں ’’تیز ہوا اور تنہا پھول ‘‘ ’’جنگل میں دھنک‘‘ ’’دشمنوں کے درمیان، شام‘‘ ’’ چھ رنگین دروازے‘‘ ’’آغازِ مستاں‘‘’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ ’’ایک دعا جو میں بھول گیا تھا‘‘ ’’سیاہ شب کا سمندر‘ ‘ ’’ ماہ منیر‘‘ اور’’ ایک مسلسل‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے پنجابی زبان میں بھی چونکا دینے والی شاعری کی اور اپنی کچھ پنجابی نظموں کا اُردو میں ترجمہ بھی کیا۔ منیرؔ نیازی نے گیت بھی لکھے اور کچھ فلموں کے لیے نغمات بھی تحریر کیے، لیکن جتنے نغمات بھی لکھے باکمال لکھے ،جن کی شہرت آج بھی قائم ہے۔منیرؔ نیازی کی شاعری میں بعض اوقات ایک عجیب پرُاسراریت ملتی ہے۔ یہ پرُاسراریت اُن کی شخصیت میں بھی تھی ،جیسے وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں، لیکن کہہ نہیں پا رہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ وہ اپنا کلام سناتے ہوئے چند ساعتوں کے لیے رک جاتے تھے، جسے آپ (Pause) کہتے ہیں۔ سامعین کو یہ تاثر ملتا تھا کہ الفاظ آواز کی کوکھ میں تڑپ رہے ہیں، پھر جب پورا شعر مکمل ہو جاتا تھاتو وہ قرۃ العین حیدر کے مطابق رام پوری چاقو کی طرح دل میں اتر جاتا تھا۔ منیرؔ نیازی اپنا کلام سناتے ہوئے بھی سامعین پر سحر طاری کردیتے تھے۔ اُن کی شاعری میں ہوا دوشیزہ، چڑیل، خواب،تنہائی،سفر،روشنی اور تیرگی جیسے الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔منیرؔ نیازی کی شاعری میں بعض اوقات خوف کی جو کیفیت ملتی ہے، وہ دراصل تقسیم ہند کے بعد کی ہجرت کا شاخسانہ ہے ۔منیرؔ نیازی کے تجربات بھی دوسرے شعرا سے کچھ مختلف ہے اور اُن کا اندازِ بیاں بھی سب سے انوکھا نظر آتا ہے۔ ان کا یہ تجربہ تاثریت سے اس قدر بھرپور ہے کہ قاری خوف کے پنجرے میں بند ہو جاتا ہے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:منیرؔ اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہےکہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہایک مختصر نظم ’’پراسرار چیزیں‘‘ میں کہتے ہیں:جب بھی تارا گرے گا اس پراس کا دل تو کانپے گانئی نئی خواہشوں کا چیتا بڑے زور سے کانپے گاذرا یہ اشعار دیکھیے:سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہوکواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہونہ جا اس سے پرے دشت مرگ ہو شایدپلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہومنیرؔ نیازی کی شاعری میں ہمیں اگر ایک طرف جمالیاتی طرز احساس ملتا ہے، تو دوسری طرف محبت کے حوالے سے ان کا جابرانہ رویہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے:جمال یار کا دفتر رقم نہیں ہوتاکسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا…………اُسے زہریلی خوشبوئوں کے رنگیں ہار دیتا ہوںمیَں جس سے پیار کرتا ہوں اُسی کو مار دیتا ہوں منیرؔ نیازی صادق جذبوں کے شاعر ہیں، جو اپنے جذبات کو قاری تک پہنچانے میں کسی جھجھک سے کام نہیں لیتے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں اُن کی یہ کیفیات کس خوبصورت انداز میں ملتی ہیں:کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیںاپنے اپنے غم کے فسانے ہمیں سنانے آ جاتے ہیں…………اس شہر سنگ دِل کو جلا دینا چاہیےپھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیےاک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میںلوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے…………جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزاکاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں…………عادت سی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنیجس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنابعض اوقات منیرؔ نیازی ہمیں ایک ایسے انسان دکھائی دیتے ہیں، جو بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہے اور بڑے سے بڑا غم بھی اُن کی ہمت کی چٹان نہیں توڑ سکا:جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میَں بھی منیرؔغم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیںلیکن یہ رائے قائم کر لینا کہ منیرؔ نیازی ایک سنگ دل انسان تھے، جنہوں نے اشک بہانا شاید سیکھا ہی نہیں یا حالات کا جبر اُن کے عزم و استقلال کا مقابلہ نہیں کر سکا، قطعی طور پر غلط ہے۔یہ شعر آخر کیا کہتا ہے:اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستواشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستواُن کی حساسیت اور درد مندی کی گہرائی اس شعر میں ڈھونڈی جا سکتی ہے:صبح کاذب کی ہوا میں درد کتنا تھا منیرؔریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیاکچھ نقادوں نے منیر ؔنیازی کو تنہائی پسند شاعر کہا ہے، لیکن احمد ندیمؔ قاسمی کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کیونکہ منیرؔ کبھی داخلیت کے اسیر نہیں رہے۔اسے بھی اُن کا ایک شعری رویہ ہی کہا جا سکتا ہے ۔ حقیقت میں منیرؔ نیازی کا ہر شعری مجموعہ نئی سمتوں اور نئے زاویوں سے قارئین کو روشناس کرتا ہے۔سادہ سی بات ہے کہ کوئی شاعر اپنے آپ کو چند تصورات اور نظریات کے پنجرے میں قید نہیں کر سکتا کیونکہ زندگی کی گاڑی کے نجانے کتنے سٹاپ ہوتے ہیں اور ہر سٹاپ پر انواع و اقسام کے مسافر کھڑے ہوتے ہیں، جن کی شناخت الگ الگ ہے۔ کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ منیرؔ نیازی معروضی صداقتوں سے گریز پا ہیں اور اُن کی شاعری میں ہمیں سیاسی اور سماجی جبر کی جھلکیاں نہیں ملتیں،اگر اُن کی شاعری میں خوف کا عنصر ہے،تو اس کے عوامل کچھ اور ہیں۔ یہ ’’الزام ‘‘ بھی درست نہیں لگتا۔ درج ذیل اشعار پر غور کرنے کی ضرورت ہے:میَں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اُس نے کیاشہر کو برباد کر کے رکھ دیا اُس نے منیرؔشہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیاجبر مسلسل اور کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب یعنی (Endless misery)کو جس اعلیٰ و ارفع انداز سے منیرؔ نیازی نے پیش کیا ہے، یہ اُنہی کا خاصا ہے:اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کومیَں ایک دریا کے پار اُترا تو میَں نے دیکھامنیرؔ نیازی کی ایک اور نظم کی آخری سطور ملاحظہ کریں:کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہوحقیقت اور تھی کچھ اُس کو جا کر یہ بتانا ہوہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میَں ہر کام کرنے میںمنیر ؔنیازی کی شاعری میں انانیت ،نرگسیت اور کسی حد تک رعونت (Arrogance)بھی بھری ہوئی ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت رہی کہ وہ عام زندگی میں بھی اُن رویوں کا شکار رہے۔ اشفاق احمد اُن کے بارے میں کہتے ہیں کہ منیرؔ نیازی کسی اور شاعر کو خاطر ہی میں نہیں لاتا اور وہ صرف اپنی شاعری کا ہی چرچا کرتا رہتا ہے۔ ذیل میں ایک شعرہی اُن کے اس رویے کا عکاس ہے:اپنے رتبے کا کچھ لحاظ، منیرؔیار سب کو بنا لیا نہ کرواس شعر میں لفظ ’’رتبے ‘‘ کو جس طمطراق سے بیان کیا گیا ہے، اس سے وہی کچھ ظاہر ہوتا ہے،جس کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے۔منیرؔ نیازی کی نظمیں ایک الگ جہان کا پتا دیتی ہیں۔ اُنہوں نے بے شمار نظمیں تخلیق کیں اور غزل کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ۔ اگرچہ اُن کی نظموں میں ہمیں موضوعات کی فراوانی ملتی ہے، لیکن لہجے میں کوئی تغیر نہیں ملتا۔ اُن کی شاہکار نظموں میں ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میَں‘‘ ،’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘،’’کوئی اور طرح کی بات کرو‘‘،’’گم شدہ ننھا بچہ‘‘،’’میری بے حسی کا ایک واقعہ ‘‘ ، ’’اک اور گھر بھی تھا مرا‘‘ ، ’’کچھ باتیں ان کہی رہنے دو‘‘ اور ایسی کئی اور نظمیں شامل ہیں۔منیرؔ نیازی نے فلمی گیت نگاری میں بھی کمال کر دکھایا ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سوجا‘‘ ،’’جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ ، ’’زندہ رہیں، تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ اور ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ (یہ گیت نہیں غزل ہے جسے فلم ’’شہید‘‘ میں نسیم بیگم نے گایا) اُن کے ناقابل فراموش فلمی گیت ہیں۔ منیر ؔنیازی نے پنجابی زبان میں بھی بلا کی شاعری کی۔ اُن کی کئی پنجابی نظمیں زبان زدعام ہوئیں۔ بعض نظموں کا تو ایک مصرعہ ہی مقبولیت کی تمام حدیں پار کر گیا، جیسے ’’کج شہر دے لوک وی ظالم سن ، کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘،’’اج دا دن وی ایویں لنگیا، کوئی وی کم نہ ہویا،اک وی خواب جے سچا ہووے، خواب نہ تکیے ہور‘‘۔منیرؔ نیازی کی شاعری ہر دَور میں زندہ رہے گی کیونکہ اس شاعری کے اتنے رنگ ہیں، اتنی سمتیں ہیں، اتنی جہتیں ہیں، اتنے زاویے ہیں، جن سے صرف نظر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔٭…٭…٭