گوادر کا تفریحی پس منظر
اسپیشل فیچر
گوادر، کراچی سے تین سو میل کے فاصلے پر ایران کی سرحد کے قریب بلوچستان کا ایک ایسا ساحلی قصبہ ہے جس میں فطری طور پر گہرے پانی کی قدرتی بندرگاہ بننے کی گنجائش پائی جاتی ہے لیکن ایک ایسے دور افتادہ مقام پر واقع ہونے کے باعث جس کا پانی ملک کے ساتھ ریل اور سڑک کے رابطے نہ ہونے کے برابر ہیں اپنی فطری صلاحیت کے باوجود اب تک گوادر کو محض مقامی سطح پر ماہی گیری کی بندرگاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں ساحل مکران پر واقع گوادر، پاکستان کا نقشے پر کراچی سے بہت آگے ایرانی سرحد کے قریب واقع ایک نہایت پسماندہ شہر ہے شہر کے اردگرد کا علاقہ گوادر کا ضلع کہلاتا ہے اس ضلع میں تین قصبے ہیں گوادر، پسنی اور مرا۔گوادر کا قصبہ 1958ء تک چھوٹی سی ہمسایہ خلیجی ریاست مسقط کے قبضہ میں تھا۔ مسقط جس کا نام سلطنت العمان ہے اس کے حکمران سلطان السعید ( موجودہ سلطان کے والد) نے اپنی معاشی پریشانیوں کے باعث گوادر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حکومت پاکستان کو بمبئی میں ان کے میزبان مسلمان تاجروں کی وساطت سے اس سودے کے بارے میں علم ہوا تو پاکستان کی اُس وقت کی حکومت نے جس کے وزیر اعظم فیروز خان نون تھے کسی تساہل سے کام لیے بغیر فوری طور پر بھارت سے زیادہ قیمت ادا کرکے گوادر کو خرید لیا اس طرح 1958ء میں گوادر پاکستان کا حصہ بنا گوادر کی فروخت کے وقت مسقط اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان یہ طے پایا کہ گوادر کے باشندوں کو بیک وقت دونوں ممالک کی شہریت حاصل ہوگئی البتہ 1985ء کے بعد پیدا ہونے والے صرف پاکستان کے شہری تصور ہوں گے اس معاہدے کے تحت آج بھی سلطنت اومان میں گوادر کے باشندوں کو شہری حقوق حاصل ہیں ان کی ایک کثیر تعداد سلطنت اومان کی فوج اور دیگر محکموں میں ملازم ہے اور بہت سے بلوچ باشندے اومان میں کاروبار بھی کرتے ہیں جس طرح پاک افغان سرحد کے دونوں طرف بسنے والے قبائل میں سماجی، ثقافتی کاروباری اور خاندانی رشتے ہیں بالکل اس طرح گوادر کے بلوچوں اور سلطنت اومان کے بلوچوں میں قدیم اور گہرے خاندانی سیاسی، سماجی، اور تجارتی رشتے پائے جاتے ہیں۔نصیر خان نوری حکمران قلات نے مسقط کے شہزادے سید سلطان کو گذر اوقات کے لیے حوالے کیا تھا تاہم بعد میں مسقط کے حکمرانوں نے اسے اپنی حکومت کا حصہ بنا لیا 1822-23میں خان قلات ناصر خان مرحوم نے اپنی فوج کی مدد سے گوادر پر قبضہ کر نے کی ناکام کوشش کی اس کی بڑی وجہ گوادر کے گورنر نے خان قلات کے کمانڈروں کو لالچ دے کر خرید لیا تھا۔1957ء میں پاکستانی حکومت نے اومان سے گوادر پونے تین کروڑ روپے باقاعدہ معاہدے کے تحت واپس خریدا کیوں کہ خان آف قلات کے آباؤ اجداد نے تحفہ میںیہ اومان کے شہزادے کو دیا تھا گوادر اس علاقے سے فاصلاتی طور پر بھی نہایت قریب ہے بلکہ اومان اور گوادر کے درمیان تاریخی روابط بھی استوار ہیں 1957ء سے قبل مسقط کی طرح گوادر بھی پسماندہ علاقہ رہا یہاں پر سلطان نے کسی قسم کی سماجی ترقی لانے کی کوشش نہیں کی تاہم گوادر میں فوجی ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے۔گوادر کی کل آباد ی تقریباً دو لاکھ کے قریب ہے اور مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے سارا ضلع ساحل سمندر پر واقع ہے اس لیے یہاں 3400افراد ماہی گیری کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہیں غربت کی وجہ سے وہ پرانی کشتیوں اور جالوں کے ذریعے مچھلیاں پکڑتے ہیں ساحلی علاقے کے قریب سمندر میں ٹیونا مچھلی عام ہے جس کی مغربی دنیا میں بڑی زبردست مانگ ہے ماہی گیر ناخواندہ ہونے کی وجہ سے سے مچھلی کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرتے ہیں یہ صوتحال 1958ء سے اب تک ویسی کی ویسی ہے۔بلوچستان میں 35مختلف رنگ و نسل کی مچھلیاں جن کا وزن ایک لاکھ چودہ میٹرک ٹن اور جو 910ملین روپے کی مالیت کی ہوتی ہیں کو روایتی طریقوں سے پکڑا جاتا ہے جن میں ساٹھ ملین روپے کی مالیت کی دس ہزار ٹن ٹیونا مچھلی ہوتی ہے خشک کرنے کے بعد ٹیونا مچھلی کو نہایت ہی کم قیمت پر سری لنکا کو دو سے 3روپے فی کلو گرام پر بیچ دیا جاتا ہے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت 15سے 20ڈالر فی کلو ہوتی ہے۔گوادر کے ساحل کا کل رقبہ 130ایکڑ ہے گوادر کا ساحل 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی شہ رگ بن چکا ہے جو ملک و قوم اور سمندری وسائل کے حوالے سے بہرہ ور ہوگا یہ علاقہ سمندری وسائل سے مالا مال ہے یہاں بندرگاہ کو ترقی دے کر خام سمندری وسائل کو استغمال کرکے کثیر زر مبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے ٹیونا مچھلی کثیر تعداد میں پائی جاتی ہے اس کا نرخ عالمی منڈی میں بہت زوروں پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ مچھلی کو پکڑنے کی جدید سہولتوں میں اضافہ ہو جس سے مچھلی کو محفوظ رکھا جاسکے اور بہتر قیمت پر فروخت کی جاسکے۔دوم یہ کہ ہر قسم کی شورش سے پاک اور وسیع علاقہ ہے جہاں لیبر بھی سستی حاصل ہوتی ہے یہاں کے سمندری راستے بھی جہاز رانی کے لیے بے مثال ہیں روس کی وسط ایشیائی ریاستیں اور افغانستان جبکہ دوسرے طرف متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقوں کے راستے میں گوادر جو کراچی سے قریباً 265میل دور ہے اور سب سے خاص بات یہ کہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس کے عین دہانے پر واقع ہے اور وسطی ایشیاء سے گوادر تک زمینی فاصلہ محض 500کلومیٹر ہے وسطی ایشیائی نو آزاد مسلم ریاستوں کی باقی دنیا کے ساتھ تجارتی روابط موزوں ترین ذریعہ گواردر کی بندرگاہ ہے اگر دفاعی اعتبار سے سی پورٹ بنایا جائے تو کراچی کی نسبت زیادہ اہم ثابت ہوگا دنیا بھر کے سمندری راستوں کے لیے ایک آئیڈیل بندرگاہ بن سکتی ہے۔اب جب سی پیک کا باقاعدہ افتتاح ہو چکا،تو اس خواب کی تکمیل ہو سکتی ہے۔بلوچستان کے ساحلی علاقے میں آٹھ قصبے ہیں جن میں 34مختلف آبادیوں میں تین لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں ان میں سے تقریباً 3400افراد مچھلی کے کاروبار سے منسلک ہیں مچھلی کی پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 23فی صد ہے جس میں گوادر کا حصہ 34فی صد ہے گوادر بندرگاہ کی پیداوار34000 میٹرک ٹن ہے جس کی مالیت 250ملین روپے ہے۔ اس کے مقابلے میں پسنی، ہاربر کی آمدنی 220ملین روپے ہے اس علاقے میں مچھلیاں پکڑنے کے آٹھ مقامات ہیں جن میں پسنی، گوادر، جیوانی، اوڑمارا، گڈانی، پشوکان اور سونمیانی شامل ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کو بلجیئن کمپنی نے 1610ملین روپے کی لاگت سے تین سال میں مکمل کر لیا تھا اس کے لیے مجموعی طور پر 604ملین روپے کا قرضہ لیا گیا تھا جس میں بلجیم کے 221ملین اور کنشوریم کے 383ملین روپے بھی شامل ہیں۔ قرضہ واپس کرنے کی مدت 13سال ہے گوادر کی بندرگاہ 1700میٹر لمبی 60فٹ چوڑی اور اس کی گہرائی 3.5میٹر ہے۔(پاکستان کی سیر گاہیں)٭…٭…٭