تحریک پاکستان کے عظیم رہنما ،مصنف، شاعر اور بابائے اردو صحافت مولانا ظفر علی خان
اسپیشل فیچر
مولانا ظفر علی خان تحریک پاکستان کے عظیم رہنما ،مصنف، شاعر اور صحافی تھے،آپ کا شمار تحریک پاکستان کے ان اہم رہنماؤں میں ہوتاہے کہ جن کی شبانہ روز محنت اور اخلاص کا پھل ہم اہل پاکستان آزادی کی نعمت کی صورت کھا رہے ہیں، آپ کو بابائے اردو صحافت بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے لاہور سے معروف اردو اخبار زمیندارکی ذمہ داریاں سنبھالیں جو ان کے والد گرامی نے جاری کیا تھا جس نے اوائل سے ہی اپنی اعلی صحافتی اقدار کی وجہ سے آنے والوں کے لیے سچ اور ذمہ داری کی عمدہ مثالیں چھوڑیں۔آج صحافتی اقدار کا لحاظ رکھنا اتنا ضروری نہیں خیال کیا جاتا لیکن یہ بہت ضروری ہے ، تفریح کو تفریح ہی رہنا چاہیے۔کچھ لوگ صحافت کے نام پر شرم وحیا کو رخصت کر دیتے ہیں اور فیشن کے نام پر بے ہودگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔پاکستانی صحافت کی جڑیں تو اردو صحافت کے آغاز سے جڑی ہیں جب بڑے بڑے ادیب اور مبلغین و مصلحین اس شعبے سے وابستہ رہے ۔سرسید احمد خان جیسے نابغے ، مولانا محمد علی جوہر جیسے سیاستدان و مدبراور حسرت موہانی جیسے ادیب و شعراء اور مولانا ظفر علی خان جیسے مدبروںنے اردو صحافت کو اپنی زندگیوں کا بہترین حصہ دیا۔انہوں نے اعلٰی اخلاقی قدروں کا نہ صرف بھرپور خیال رکھا بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے مثال قائم کی۔ صحافت قوموں کی عصری تاریخ ہوتی ہے، معاشرے کا طرز عمل، خیالات،عوام کی حالت اور ان کے مسائل تک اس عہد کی صحافت ہی محفوظ کرتی ہے۔صحافت نے بڑی بڑی سیاسی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا اورتھرک پاکستان میں بھی اس کا کردار بہت نمایاں اور اہم ہے۔مولانا ظفر علی خان نے یہ بتایاکہ ہمارا دین، روایات، کلچر اور تہذیب کا خیال رکھنا بھی یہاں کی صحافت پر فرض ہے۔ہمارے تہذیبی اور تمدنی احساسات، نظریات اور اخلاقی اقدارکی ایک تاریخ ہے۔مولانا ظفر علی خان19 جنوری، 1873ء میں کوٹ میرٹھ شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مشن ہائی اسکول وزیر آباد سے مکمل کی۔اس کے بعد گریجویشن کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد (Secretary) کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ (Home Department) کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔آپ نے اخبار \"دکن ریویو\" جاری کیا اور بہت سی کتابیں تصنیف کرکے اپنی حیثیت بطور ادیب و صحافی خاصی مستحکم کی۔مولانا ظفر علی خاں کی صحافتی اور سیاسی شاعری، ان کی غیر معمولی دماغی صلاحیتوں، تحریک حریت میں ان کے جرات مندانہ کردار، ان کا اردو صحافت میں خود ایک دبستان اور درسگاہ کی حیثیت اختیار کر جانا، جنگ آزادی پاکستان میں ان کا بہادر مجاہد کی طرح انگریز حکمرانوں کو للکارنا اور آزادی تقریر و تحریر کے جرم میں طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا یہ سب وہ حقائق ہیں جس سے مولانا ظفر علی خاں کا بڑے سے بڑا سیاسی مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ان کی خدمات کے اعتراف کے لیے علامہ اقبال جیسی شخصیت کی یہ رائے ہی کافی ہے کہ’’ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے‘‘1908ء میں آپ لاہور تشریف لے آئے اور لاہور آتے ہی روزنامہ زمیندار کی ادارت سنبھالی جسے ان کے والد مولوی سراج الدین احمد نے 1903ء میں شروع کیا تھا۔ مولانا کو \"اردو صحافت کا امام\" کہا جاتا ہے اور زمیندار ایک موقع پر پنجاب کا سب سے اہم اخبار بن گیا تھا۔ زمیندار ایک اردو اخبار تھا جو بطور خاص مسلمانوں کے لیے نکالا گیا تھا۔ اس اخبار نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا آسان کام نہ تھاا۔ بعض اوقات انتہائی مشکل صورت حال پیدا ہو جاتی اورعملے کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے تک نہ ہوتے تھے۔مولانا نے صحافیانہ زندگی کی شروعات انتہائی دشوار گزار اور ناموافق حالات میں کی۔ اس زمانے میں لاہور اشاعت کا مرکز تھا اور تینوں بڑے اخبار پرتاب ، محراب اور وی بھارت ہندو مالکان کے پاس تھے۔ اسی دور میں مولانا اور زمیندار نے تحریک پاکستان کے لیے بے لوث خدمات انجام دیں۔ کامریڈ (مولانا محمد علی جوہر کا اخبار ) اور زمیندار دو ایسے اخبار تھے جن کی اہمیت تحریک پاکستان میں مسلم ہے اور دونوں کے کردار کو بیک وقت تسلیم کیا جاتاہے۔ \"جدید مسلم ہندوستان اور قیام پاکستان\" (Modern Muslim India and the Birth of Pakistan) میں ڈاکٹر ایس ایم اکرام لکھتے ہیں، ’’وہ جوان ، زور آور اور جرات مند تھے اور نئے سیاسی اطوار کا پرجوش انداز میں سامنا کیا۔ ان کی ادارت میں زمیندار شمالی ہند کا سب سے اثر انگیز اخبار بن گیا اور خلافت تحریک میں ان سے زیادہ فعال کردار صرف علی برادران اور مولانا ابو الکلام آزاد ہی تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ تھا جس نے اردو کو اپنی زبان کے طور پر اپنایا اور اسے کام کی زبان بنایا ،باوجود اس کے کہ پنجابی اس صوبے کی مادری زبان ہے اور سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔ پنجابی کا اصل رسم الخط گورمکھی کو مسلمانوں نے اس لیے نہیں اپنایا کہ یہ سکھ مذہب سے جڑا ہوا تھا۔ اس طرح اردو انگریزی کے ساتھ پنجاب کی اہم لکھی جانے والی زبان بن گئی اور دونوں تقریبا ایک جتنی مقدار میں سرکاری اور تعلیمی زبان کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔مولانا ظفر علی خان غیر معمولی قابلیت کے حامل خطیب اور استثنائی معیار کے انشا پرداز تھے۔صحافت کی شاندار قابلیت کے ساتھ ساتھ مولانا ظفر علی خان شاعری کے بے مثال تحفہ سے بھی مالا مال تھے۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ وہ اسلام کے سچے شیدائی، محب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اپنی نعت گوئی کے لیے مشہور و معروف ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔ ان کی مشہور کتابیں درج ذیل ہیں:معرکہ مذہب و سائنس،غلبہ روم،سیر ظلمت،جنگ روس و جاپان۔انہوں نے 27 نومبر 1956ء کو وزیر آباد کے قریب اپنے آبائی شہر کرم آباد میں وفات پائی۔ ان کی نمازِ جنازہ ان کے ساتھی محمد عبدالغفور ہزاروی نے پڑھائی۔ ٭…٭…٭