قحط الرجال باکمال نثر نگار مختار مسعود کی شاہکار تحریر
اسپیشل فیچر
میں ان سے ملاقات کی خواہش رکھتا ہوں مگر اس کے لئے نظر کہاں سے لاؤں۔ ابھی میری وہ جستجو بھی نا تمام ہے جو بہادر و لندیزی لڑکے کی کہانی سے شروع ہوئی تھی۔ اس سے فارغ ہوا تو کنگرہ کبریائی کے قرب میں بسنے والوں کی تلاش شروع کروں گا۔ کہتے ہیں کہ یہ تلاش ساحل دریا سے شروع کرنی چاہیئے، جہاں ایک بزرگ صورت ملتے ہیں جو منزل کا صحیح پتہ بتا دیتے ہیں۔ میں نے اس خاکدان کو اتنا دلچسپ پایا ہے کہ ابھی ساحل دریا تک نہیں پہنچا اور دل کو اس خیال سے بہلا لیتا ہوں کہ ہمدم دیرینہ کی ملاقات کو مسیحا و خضر پر ترجیح دینے والے قبیلے کا رکن ہوں، حالانکہ سچ بات کچھ اور ہی ہے۔ ملک نے اپنے دریا فروخت کر دئیے ہیں اور اب ان کی سوکھی گذر گاہوں کے کنارے خضر کی تلاش عبث ہو گی۔ اب نہ دریا میں پانی ہے نہ انسان میں دریا دلی۔ اس عالم میں جس نے چلنے کے لئے راستہ دے دیا وہی خضر ٹھہرا اور جس نے زندہ رہنے دیا وہی مسیحا بن گیا۔میاں نصیر احمد جن دنوں صوبہ مغربی پاکستان میں محکمہ مال کے افسر اعلیٰ تھے ایک بار دورے پر بہاولپور آئے۔ رات کے دو بجے میںا نہیں سمہ سٹہ کے ریلوے جنکشن پر لینے گیا۔ اس نا وقت ملاقات پر وہ خوش ہوئے مگر خوشنودی کو ان کی کم گوئی اور ضابطے کی پابند طبیعت نے اظہار کا موقع نہ دیا۔ میں نے نصیر صاحب کو جیپ میں بٹھایا اور بہاولپور کی طرف روانہ ہوا۔ رات کا آخری پہر تھا، سڑک کے کنارے پہلے ریت کے ٹیلے آئے پھر کھیت شروع ہوئے اور ان کے بعد ایک جنگل۔ دھندلکے میں کھجور کے درخت آسمان کو چھو رہے تھے اورآسمان بڑا شفاف اور روشن تھا۔ نصیر صاحب کا غنچہ دل وا ہو گیا۔ بعض اشخاص اور مقامات کی طرح بعض اوقات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ طبیعت کو ان سے کشادگی کی دولت حاصل ہوتی ہے۔ آخر شب اور اوّل سحر کے اثرات کی سند نالۂ نیم شبی اور آہِ سحر گاہی کی روایات میں عیاں ہے ۔ ابوالکلام نے اسی وقت گرانما یہ کی کرشمہ سازیوں اور اپنی چائے نوشیوں کا ذکر کیا ہے جس کے ایک لمحے میں میاں نصیر احمد اپنے رکھ رکھاؤ اور لیے دئیے رہنے کی پختہ عادت کو ترک کر کے اتنے قریب آ گئے کہ مجھے ان کے قلب کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع مل گیا۔ نصیر صاحب نے ان لوگوں کا ذکر چھیڑ دیا جن کے دشتِ جنوں میں جبریل کو صیدزبوں سمجھا جاتا ہے۔ میں دیر تک ان کی باتیں سنتا رہا۔ سرکٹ ہاؤس کے وسیع ڈرائنگ روم میں آتشد ان جل رہا تھا مگر اس سے کہیں زیادہ حرارت اس ذکر میں تھی جسے تہجد سے فجر تک میاں صاحب بیان کرتے رہے۔ میں نے ایک موقع پر عرض کیا کہ ہم غیب پر تو بخوشی کامل ایمان لاتے ہیں مگر انسان پر اس کے حاضر ہونے کے باوجود اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، کیونکہ یہ بازی گرکھلا دھوکہ دیتے ہیں۔ ظاہر اور حاضر کچھ، باطن اور غائب کچھ اور۔ نہ زندگی اتنی طویل اور فارغ کہ ہر ایک کو پرکھا جائے نہ بصیرت اتنی عام کو ہر ایک پرکھ سکے۔ طبیعت اس خیال سے کبھی اداس اور کبھی باغی ہو جاتی ہے کہ یہ سب قصے ماضی کے ہیں اور حال کے حصے میں محض یادیں آتی ہیں یا محرومیاں۔ میاں نصیر نے کہا حال اتناتہی دامن نہیں جتنا تم سمجھتے ہو اور ایک مردحق کا قصہ سنایا جو ان کے مشاہدے کی بات تھی۔ میں نے کہا ان کا تو انتقال ہو چکا ہے کسی اور کا پتہ دیجئے، انہوں نے ایک اور نام لیا اور ملانے کا وعدہ کیا۔ سال بھر بعد میاں صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ دوسرے صاحب بھی انتقال کر چکے تھے۔ کہنے لگے اس بار نام نہیں بتاؤں گا جب لاہور آؤ گے تب دیکھا جائے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ شہر اچھے آدمیوں سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ میں چند سال کی غیر حاضری کے بعد لاہور واپس پہنچا تو شہر ایک اچھے آدمی سے محروم ہو چکا تھا۔ میاں نصیر انتقال کر چکے تھے۔ سنا ہے ان کے جنازے میں وہ صاحب بھی شامل تھے جو زائد العمر ہو کر ریلوے کے ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے فارغ ہوئے تو مفتی محمد حسن صاحب کے پاس جا پہنچے اور بیعت کی خواہش کی۔ جواب ملا کہ تیس برس کی ملازمت کی تمام نا جائز یافت کا حساب کرو، جو حقدار مل سکے اسے لوٹا دو اور جس کا حقدار نہ ملے وہ محکمہ ریل کے کھاتے میں جمع کرا دو۔ تعمیل ارشاد میں اندازہ لگایا تو رقم ہزاروں میں نکلی۔ اندوختہ فروخت کیا اور رقم تقسیم کر دی، اپنا دامن جھاڑ کر اُٹھے اور مفتی محمد حسن کے دامن کو پکڑ لیا۔ میں نے سالہا سال لاہور سیکریٹریٹ میں کام کیا مگر کبھی خیال بھی نہ آیا کہ اس سے ملحق کرشن نگر کی بستی میں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو توبہ کے لئے سارا اثاثہ فروخت کر دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔ دفتر میں کام کرنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے نظر صرف کاغذ پر جمی رہتی ہے اور انسان اس سے اوجھل رہتا ہے۔ میں ایک بار دفتر سے باہر نکلا اور دوسرے ممالک میں پھرتا ہوا دور جا پہنچا۔ سررا ہے ایک اہلِ حق سے ملاقات ہوئی جس کا سرور آج بھی ایسا ہے جیسے کل کی بات ہو حالانکہ جن سے ملاقات ہوئی تھی ان کی وفات کو دو چار برس گذر چکے ہیں۔ میرے ذہن میں اس وقت یہی ذات تھی جب میں نے چاند پر اترنے والے پہلے آدمی کو دیکھنے کے لیے ڈھاکہ جانے سے انکار کیا تھا۔ برنی نے کہا، خلائی مسافر ڈھاکہ آرہے ہیں چلو انہیں دیکھ آئیں، ممکن ہے ان سے ملاقات کا بندوبست بھی ہو جائے۔ میں نے کہا، خیال اچھا ہے مگر میں اس مقصد کے لئے سفر کی شرط پوری نہیں کر سکتا۔ سفر تو صرف دو ہیں، ہجرت اور معراج، ان کے علاوہ کسی اور مقصد کے سفر ہمیں منظور نہیں۔ خلائی مسافروں کے لئے میں کیوں کر سفر کر سکتا ہوں جبکہ میں نے ان کیلئے بھی خاص سفر نہیں کیا تھا جن کے بارے میں دل گواہی دیتا ہے کہ مہر و ماہ ان کی کمند میں تھے۔ جب میں ان سے ملا وہ لیٹے ہوئے تھے۔ وہ مدت سے مفلوج تھے مگر بیماری کے نہ آثار نہ اثرات۔ دمکتا چہرہ، کھنکتی آواز، طنطنہ ایسا کہ جب ایک ملک کی صدارت کا ذکر آیا اور میں نے پوچھا کہ سیاست میں اچھے لوگوں کی کمی کی شکایت کرنے والے خود اس کے امیدوار کیوں نہیں بن جاتے، اور کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ نا صح سیاست میں حصہ لے کر مثال قائم کریں تو ان کا منہ سرخ ہو گیا۔ بڑی مشکل سے مفلوج پاؤں کے پنجے کو حرکت دی اور کہنے لگے میں اس صدارت کو اس بے حسِ پاؤں تلے آنے والی خاک سے کمتر جانتا ہوں اور تم چاہتے ہو کہ اہلِ حق اپنی توجہ اور توانائی اس راہ میں ضائع کر دیں۔ مجھے احساس ہوا کہ ان کے پاؤں کی مٹی کحِل بصر ہے، میں نے آنکھوں میں لگائی تو اہلِ اقتدار اور اہلِ اتقا کا فرق نظر آنے لگا۔ آج ان کے جلال و ارشاد کی یاد آتی ہے تو بیدل کا یہ شعر بھی یاد آ جاتا ہے؎آخرز فقر برسرِ دنیا زدیم پاخلقے بجاہ تکیہ زدوما زدیم پابہادر لڑکے کی اس کی منزل تک کے سفر کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ اس سفر کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی ایسی شاہراہ پر تنہا چلا جا رہا ہوں جس کے کنارے بڑے بڑے آدمی دوردیہ کھڑے ہیں جس کے پاس جی چاہا ٹھہر گئے اور دو باتیں کر لیں، جس سے ناخوش ہوئے اس سے آنکھیں ملائے بغیر آگے بڑھ گئے۔ یہ سفر بیشتر کتابی تھا۔ موضوع کی وسعت کا یہ عالم ہے، کہ ادبیات کے ہر حصے پر محیط ہے، ملائے بغیر آگے بڑھ گئے۔ یہ سفر بیشتر کتابی تھا۔ موضوع کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ ادبیات کے ہر حصے پر محیط ہے، تاریخ، عمرانیات، نفسیات، ادب، سوانح، خاکے، مضمون، شہر آشوب، قصیدے اور ہجو۔ موضوع کے تنوع کا یہ عالم ہے کہ یہ داستان بہ ہر عنوان پھیلی ہوئی ملی، مشاہیر اور مشاہیر پرستی، میری زندگی، اس کی سوانح، سرگذشت، اعمال نامہ، ناقابلِ فراموش،گنج ہائے گرانمایہ، ہم عصر، جرأت کے چہرے، روشنی کے مینار، دانشمندی کے ستون، عظیم شخصیت، دس بڑے لوگ، سو بڑے آدمی، بڑے آدمیوں کا انسائیکلوپیڈیا۔ اتنے بڑے سرمائے کو پڑھنے کے لئے ایک عمر اور ایک فرصت درکار ہے، یہ دونوں میسر بھی ہوں تو ان کے استعمال اور کتاب کے انتخاب میں احتیاط لازم ہے۔ یہ احتیاط خود نوشت کے سلسلے میں بے حد ضروری ہے۔ اور یہ عادت بے حد مضر ہے کہ ہر بڑے آدمی کی خود نوشت سوانح کو پڑھا جائے۔ رزق ہی نہیں کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آ جاتی ہے۔ (مختار مسعود کی کتاب ’’آواز دوست‘‘ سے انتخاب)٭…٭…٭