ایک اچھا مضمون کیسے لکھیں
اسپیشل فیچر
طلباء کو دورانِ تعلیم اکثر مضمون نویسی کا مرحلہ پیش آتاہے۔ کبھی یہ مضمون امتحان پاس کرنے کیلئے لکھنا پڑتا ہے اور کبھی داخلے یا سکالرشپ کے حصول کیلئے ۔ دنیا کی مشہور یونیورسٹیاں اپنے ہاں داخلے کے خواہشمند طلبہ کے لکھے ہوئے ’’ذاتی مضمون‘‘ کو بسا اوقات اُن کے امتحانی نتائج سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ معروف بین الاقوامی امتحانوں جیسا کہ SAT، IELTS, GMAT اور GRE میں مضمون نویسی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ مضمون نویسی کا ہنر صرف دورانِ تعلیم ہی کار آمد نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی بات کہنے اور لکھنے کا ہنر رکھنے والے لوگوں کی معاشرے میں، اپنے حلقہ احباب میں اوراُن کے کام کی جگہ پر بے انتہاء قدرومنزلت ہوتی ہے۔مضمون نویسی کو اکثر ایک خشک، بورنگ اور مشکل کام سمجھا جاتا ہے اور طلباء کی اکثریت مضمون لکھنے کی بجائے مشہور موضوعات جیسا کہ میرا پسندیدہ شاعر، میرا بہترین دوست، ایک یادگار سفر اور صبح کی سیر پر پہلے سے لکھے گئے مضامین کا رٹہ لگانے کو ہی مضمون نویسی کیلئے کافی تیاری سمجھتی ہے۔ ایک اچھا مضمون لکھنے کیلئے سب سے ضروری بات مضمون نویس کے لئے مطالعے کا ذوق و شوق ہے۔ اچھے مطالعے کے ساتھ نہ صرف معلومات اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ قاری کو بات کہنے کا سلیقہ اور قرینہ بھی سکھاتا ہے۔ایک اچھا مضمون نویس بننے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں اور طلبہ میں اچھی کتابیں پڑھنے کے رواج کا فروغ ہی مضمون نویسی کے معیار کو بلند کر سکتا ہے۔اچھے مطالعے کے ساتھ ساتھ کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھنا ایک مضمون کے معیار کو بہتر کر سکتا ہے۔مضمون کے موضوع کو پوری طرح سمجھنا اور اس کے بارے میں ابتدائی معلومات کا ہونا ایک اچھا مضمون لکھنے کی کم سے کم شرط ہے۔ جس طرح ایک کامیاب کاروباری فرد کیلئے اپنے گاہک کے مزاج اور اُس کی ترجیحات سے آگاہی ضروری ہے اسی طرح اچھے مضمون نویس کیلئے موضوع کو سمجھنا لازمی ہے۔ مضمون لکھنے کے دوران مضمون کے موضوع کی طرف بار بار رجوع کرنا مضمون نویس کو موضوع سے بھٹکنے سے روکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ لکھاری کو مضمون میں اُن نکات کو لکھنا ہے جو کہ موضوع کا احاطہ کر رہے ہوں نہ کہ اُن نکات کا جن پہ لکھاری کو عبور حاصل ہو امتحانوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ طالب علم موضوع پر لکھنے بجائے غیر متعلقہ نکات پر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ایسا کرنا لکھاری کے بارے میں اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔ اچھا امتحانی مضمون لکھنے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ لکھا جائے جو موضوع کا تقاضا ہے نہ کہ وہ نکات جن سے لکھاری کو آگاہی ہے۔مضمون کا پہلا حصہ جو کہ ابتدائیہ (Introduction) کہلاتا ہے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مضمون کا چوتھا حصہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے اس حصے میں لکھاری کو اپنے موقف کو ثابت کرنا ہے جس کیلئے نہ صرف مضمون کے حق میں بیان کئے گئے دلائل کو وضاحت سے بیان کرنا بلکہ موضوع کے مخالف دلائل کو منطقی طریقے سے رَد کرنا ضروری ہے۔ مضمون کا یہ حصہ نسبتاً طویل ہوتا ہے اور اسے توازن اور ہنرمندی سے لکھنا مضمون کے معیاری ہونے کیلئے لازمی شرط ہے۔ مضمون کا پانچواں اور آخری حصہ (conclusion) مضمون کے چوتھے حصے کے ساتھ منسلک ہے۔ جہاں مضمون کا ابتدائیہ قاری کو مضمون کے ساتھ جوڑنے میں مددگار ہوتا ہے وہیں مضمون کا اختتام قاری کو مضمون اور مضمون نویس کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لکھاری اپنے مضمون کے مختلف حصوں میں اقوالِ زریں (Quotations) شامل کر سکتا ہے۔ درست جگہوں پر اقوالِ زریں کا برمحل استعمال مضمون کی خوبصورتی اور دلچسپی کو بڑھاتا ہے تاہم لکھاری پر اِن اقوالِ زریں کے مصنف اور ذریعے کو بتانے کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ مضمون میں بیان کئے گئے ذاتی واقعے نے طالب علم کی شخصیت اور اس کے سوچنے کے انداز پر کیا اثر ڈالا۔ لہٰذا ذاتی مضمون تبھی مکمل ہوتا ہے جب طالب علم خود پر بیتے واقعات کے ساتھ ساتھ سیکھے گئے نتائج کا بھی ذکر کرے۔یاد رہے ایک اچھا مضمون قلم اور کاغذ سے کم اور دل سے زیادہ لکھا جاتا ہے۔