لفظ کائنات۔معنیٰ ومفہوم
اسپیشل فیچر
کائنات کی تخلیق سے متعلق عصر حاضر کے جدید نظریات کی تفصیل پیش خدمت ہے۔ مکمل و متحد کائناتی نظریہ کیا ہے ؟وہ خود اس کی وضاحت ان لفظوں میں کرتے ہیں:’’اگر ہمارے پاس صرف ایک ممکنہ متحد کائناتی نظریہ ہو جو قواعد و مساتواں کا مجموعہ ہو، تب بھی ہم ماہیت ایزدی کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ کیا ہستی ہے جو مساواتوں میں پوشیدہ ہے، اور جس نے ایک کائنات بنائی ہے جس کی تشریح ان مساواتوں سے ہو رہی ہے؟ سائنس کے ریاضیاتی ماڈل ہمیں یہ حقیقت بتانے سے قاصر ہیں۔ آخر یہ کائنات وجود ہی کیوں رکھتی ہے کہ جس کے بارے میں ہم متفکر رہتے ہیں، کیا حتمی و متحد نظریہ صرف اس لیے پرکشش ہے کہ کائنات از خود وجود میں آئی ہے؟ یا پھر اسے کسی خالق کی ضرورت ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا وہ کائنات کی تخلیق کرنے کے علاوہ بھی اس پر کوئی اثر ڈالنے کا ذمہ دار ہے؟ اور اس کا خالق کون ہے؟ اگر ہم نے کائنات کا مکمل ترین نظریہ دریافت کر لیا تو کچھ وقت گذرنے کے بعد اپنے وسیع تر تناظر کی بدولت اسے کم و بیش ہر ایک کے لیے قابل فہم ہونا چاہیے اگر ہمیں اس سوال کا جواب مل گیا تو یہ انسان کے عقلی استدلال کی عظیم ترین کامیابی ہوگی ۔بگ بینگ کا نظریہ آغاز کائنات کے متعلق تمام تر سائنسدان اس پر متفق ہو چکے ہیں کہ اس کا آغاز بنیادی کوانٹم ذرات کی انتہائی کثیف گیس پھٹنے سے ہوا ۔کثیف گیس ایک انتہائی آتشی گولے (Primaval Firball) میں بند تھی جسے (Singularity) یا نقطہ وحدانی بھی کہا جاتا ہے اس شدید ترین دھماکے کو بگ بکنگ کا نام دیا جاتا ہے، اس دھماکے کے نتیجہ میں ابتدائی کائنات کا مادہ الیکٹرانوں اور پروٹانوں پر مشتمل تھا یہ مادہ شدت حرارت کے ساتھ تیزی سے پھیلا اور بتدریج ٹھنڈا ہوتا چلا گیا اور لاکھوں سال کے عرصہ میں سیاروں، ستاروں اور کہکشائوں میں مکثف (Condensed) ہو گیا اس وقت سے آج تک کائنات کے پھیلائو کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ کہکشائیں ہم سے مسلسل دور بھاگتی چلی جا رہی ہیں۔ کائنات کا ابتدائی تخلیقی مادہ ہائیڈروجن گیس تھی جسے قرآن ’’دخان‘‘ سے تعبیر کرتا ہے (دخان کی وضاحت آئندہ آئے گی)۔بگ بینگ کا نظریہ اولاً پیش کرنے والے روسی ریاضی دان الیگزینڈر فرائڈمان تھے۔ انہوں نے 1922ء میں کائنات کے پھیلنے کا تصور پیش کیا، اس کے ٹھیک سات سال بعد برطانوی فلکیات دان ایڈون ہبل کی دیو قامت دوربین کی ایجاد نے اس نظریہ پر مہر تصدیق ثبت کی۔ 1924ء میں ایڈون ہیل نے واضح کیا کہ ہماری کل کائنات صرف سورج اور قرب و جوار کے ستاروں اور ان کے وسیع مجموعہ (ملکی وے) پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس کے برعکس ایسی ان گنت کہکشائیں ہماری کائنات میں شامل ہیں اور ان کے درمیان وسیع و عریض خلا موجود ہے۔ اس نے واضح کیا کہ ہماری کہکشاں، کائنات میں پھیلی ہوئی کھرب ہا کھرب کہکشائوں میں سے صرف ایک ہے جنہیں جدید ترین دور بین سے ہی دیکھنا ممکن ہے ،ان میں سے بھی ہر کہکشاں بذات خود کھربوں ستاروں کا مجموعہ ہے جس کہکشاں میں رہتے ہیں وہ تقریباً ایک لاکھ نوری سال چوڑی ہے جو بہت آہستہ گھوم رہی ہے، اس کے مرغولہ نما بازوئوں میں موجود ستارے اس کے مرکز کے گرد تقریباً ہر دس کروڑ سال میں ایک چکر پورا کرتے ہیں ۔ہمارا سورج بھی ملکی وے (کہکشاں) کا ایک عام، اوسط جسامت والا پیلا ستارہ ہے جو اس کے بازو میں بیرونی کنارے کے قریب واقع ہے۔ ہبل نے مزید دیکھا کہ کہکشائیں ہم سے مسلسل دور ہو رہی ہیں۔ اس حوالے سے حیرت انگیز نتائج اس نے 1929ء میں شائع کیے۔فرائڈ مین کے یہ پیش کردہ مفروضہ ایڈون ہبل کے مشاہدات کے بعد (Background Microwave Radiation) کی دریافت کے بعد حیران کن طور پر درست ثابت ہوا وہ اس طرح کہ 1965ء میں دو امریکی طبیعات دان اے اے پنزیاز اور رابرٹ ولسن جو بیل لیبارٹریز میں نیو جرسی میں ایک احساس مائیکرویو سراغ رساں (انٹینا) پر کام کر رہے تھے۔ اس ضمن میں جس چیز نے انہیں بگ بینگ کی باقیات کی دریافت میں مدد دی وہ انٹینا کا غیر ضروری، مستقل اور ہمہ جہتی مائیکروویوز کا سخت شور تھا جو انٹینے کی مختلف سمتیں تبدیل کرنے اور ہر ممکنہ خرابی سے پاک کرنے پر بھی متواتر دن و رات ایک ہی کیفیت میں آرہا تھا حالانکہ زمین کی محوری گردش ان شعاعوں پر اثر انداز ہونا چاہیے تھی مگر اس مستقل اور متواتر مائیکروویو شعاعوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ لہریں نظام شمسی کے بھی باہر سے آرہی تھیں اس پر دونوں سائنسدانوں نے فرائیڈ مین کے کائناتی ماڈل کی تصدیق کی کہ جس کی روسے کائنات کا تمام مادہ بشمول تمام تر توانائی کے ایک نقطے میں جمع تھا جسے Singularity یا ’’مجردیت‘‘ کہا جاتا ہے، اسی نقطہ کے پھٹنے سے تمام تر توانائی ہر طرف پھیلی اور یہ لہریں اسی عظیم دھماکہ کی باقیات تھیں جو ابھی تک وصول ہو رہی تھیں۔ اسی دوران دو امریکی طبیعات دان باب ڈک اور جم پیبلز جارج گیمو کے پیش کردہ اس نظریے پر کام کر رہے کہ اگر ابتدائی کائنات انتہائی گرم، کشف حالت میں اور سفید رنگت میں چمک رہی تھی تو اس ابتدائی چمک دمک کی باقیات آج بھی ہونی چاہئیں اور یہ آج مائیکروویوز کی شکل میں قابل مشاہدہ ہونی چاہئیں، ڈک اور جِم پیبلز اپنی شعاعوں کی تلاش میں تھے کہ انہیں پنزیاس اور ولسن کی دریافت کردہ لہروں کا سراغ مل گیا اس طرح اس نظریہ کو مزید تقویت ملی، اس پر 1978ء میں دونوں سائنسدانوں پنزیاس اور ولسن کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔