رومانی افسانہ نگاروں کے افسانوں میں طنزومزاح
اسپیشل فیچر
اُردو میں رومانی تحریک‘ سرسید احمد خان کی اصلاحی تحریک اور کلاسیکی روایت کے خلاف احتجاج کی شکل میں نمودار ہوئی۔ اُردو میں رومانی تحریک کا پہلا دور ’’مخزن‘‘ سے شروع ہوا جس میں آسکر وائلڈ سے متاثر ہونے والے جذباتی رویوں کو ادبی اظہار کا موقع ملا پھر سجاد حیدر یلدرم اور ان کے ساتھیوں کے حوالے سے رومانی تحریک نے ایک خاص شکل اختیار کی جس میں انگلستان کی رومانی تحریک کے اثرات نمایاں محسوس ہوتے ہیں۔ بے شک رومانیت کی اصطلاح اُردو میں انگریزی سے آئی۔رومانیت کا تصور اپنے اندر بڑی وسعت اور جامعیت رکھتا ہے ہمارے نثری ادب میں رومانیت کی توانا روایت کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہی ہے۔ قدیم داستانوں میں رومانی انداز موجود تھا نیز قدیم ناولوں میں بھی رومانیت کا عنصر موجود رہا ہے۔ رومانی انداز نے ’’مخزن‘‘ کی اشاعت کے بعد ایک تحریک کی صورت اختیار کی جس نے تمام اصناف ادب کو متاثر کیا۔رومانیت کا لفظ رومان سے نکلا ہے اور لفظ رومانس رومن زبان سے متشق ہے۔ اس لفظ کا استعمال متعلقہ زبانوں میں سے کسی ایک زبان کی کہانیوں‘ خیالی افسانہ‘ ناول یا نظم کے لیے ہوتا ہے جن میں خیالی اور تصوراتی زندگی کو بنیاد بنایا گیا ہو اور ایسی تحریروں کو بھی رومانس کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے جن میں مبالغہ آرائی‘ عشق و محبت کا معاملہ‘ تخیل پرستی کی رنگ آمیزی ہو۔عربی زبان میں رومان سے مراد کوئی مقبول عام قدیم رزمیہ داستان ہے‘ کوئی محیرالعقول جذباتی افسانہ یا ناول جس میں سوسائٹی کی محض خیالی اور حیرت ناک تصویر پیش کی گئی ہو رومان کے دائرے میں آتی ہے۔فارسی زبان میں لفظ رومان کے لغوی معنی ناول‘ قصہ یا افسانہ کے ہیں۔ دراصل ’’رومان‘‘ جو کبھی محض ایک لفظ تھا رفتہ رفتہ ایک ادبی اصطلاح بن گیا اور اس سے وابستہ تصورات و افکار نے اس وقت کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اٹھارہویں صدی کے اختتام پر پہنچتے پہنچتے رومانیت ایک ادبی تحریک میں تبدیل ہو گئی جسے ادب میں رومانی تحریک کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اردو ادب میں رومانیت ایک ایسے طرز احساس کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس میں محبت‘ آزادی اور انسان دوستی کے خیال کو پروان چڑھایا گیا۔ رومانی ادیب فطرت پرستی‘ ماضی سے وابستگی‘ وطن پرستی‘ انقلاب کی خواہش‘ قدیم تاریخ سے دلچسپی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتا ہے۔ رومانیت کے علم بردار حسن‘ فراغت‘ غموں سے دوری کے متلاشی تھے اور اپنی تحریروں میں بھی ایسے ہی نظریات کی ترجمانی کرتے تھے۔رومانیت کا سرچشمہ روسو کی یہ منفرد آواز قرار دی جاتی ہے کہ :’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے۔ مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے‘‘روسوکی انقلابی آواز پر کئی مصنفین اور شعرا نے لبیک کہا۔ گوئٹے اور شیلے نے اس کا اطلاق ادب پر کیا۔ پھر ولیم بلیک‘ ورڈز ورتھ‘ کیٹس وغیرہ کی رومانی تحریروں سے رومانی تحریک کو مغرب میں فروغ حاصل ہوا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب انگریزی زبان و ادب کو تدریس کا مستقل جزو بنا دیا گیا تو ہندوستانی نوجوانوں کو مغرب کے رومانی شعرا کے براہ راست مطالعہ کا موقع ملا۔ یوں مغرب میں فروغ پانے والی رومانی تحریک نے ہندوستان کے باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کیا جس کا اثر ہر صنف ادب پر بہت گہرا اور تیزرفتاری سے ہوا۔ ’’سر عبدالقادر‘‘ نے ’’مخزن‘‘ کی اشاعت کر کے مغربی رومانی تحریک سے متاثر ان نوجوانوں کو ادبی اظہار کا ایک پلیٹ فارم فراہم کیا ’’مخزن‘‘ نے رومانیت پسند ان نوجوانوں کی تحریروں کی اشاعت کو فروغ دیا اور رومانی تحریک نے اُردو ادب کی ہر صنف پر حیرت انگیز اثرات مرتب کرنے شروع کئے۔رومانی تحریک نے جہاں اُردو ادب کی تمام اصناف کو متاثر کیا وہاں اُردو افسانے پر بھی اپنے دیرپا اثرات مرتب کئے۔ یلدرم اُردو افسانہ میں رومانیت کے علمبردار ہیں یلدرم سے متاثر ہونے والے دیگر افسانہ نگاروں میں نیاز فتح پوری‘ مجنوں گورکھ پوری‘ حجاب امتیاز علی‘ سلطان حیدر جوش‘ قاضی عبدالغفار وغیرہ شامل ہیں۔رومانی افسانوں میں طنزو مزاح کی فراوانی نہیں لیکن رومانی افسانہ طنزومزاح سے تہی دامن بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی رائے ملاحظہ فرمائیں :’’رومانیت اور تخیل کی فراوانی لکھنے والوں پر ایک ہلکا پھلکا سا موڈ طاری کر دیتی ہے۔ اسی موڈ سے پیدا ہونے والے بے نیازی ایک مزاحیہ کیفیت کو جنم دیتی ہے جبکہ طنز کی توجیہہ یوں کی جا سکتی ہے کہ رومانیت چونکہ مثالیت کی طرف لے جاتی ہے لہذا جب حقیقی دنیا میں یہ مثالیت نہیں ملتی تو تضاد کی وجہ سے لکھنے والا تلخ ہو کر طنزیہ اور استہزائیہ اسلوب اپناتا ہے۔ اسی لیے ان سب کے ہاں تلخی بھی ملتی ہے۔ دراصل مزاح حقیقت نگاری کی ایک قسم ہے جبکہ رومانیت ایک تخیلی اور مثالی دنیاکی سیر کراتی ہے گویا مزاح اور رومانیت دو متضاد چیزیں ہیں۔(اقتباس: اردو افسانہ میں طنزومزاح)٭…٭…٭