حکایت مولانا رومی
اسپیشل فیچر
ایک چڑی مار نے بڑی ترکیبوں سے جال بچھا کر نہایت نادر اور خوبصورت چڑیا پکڑی۔ جب وہ چڑیا جال میں پھنس گئی اور آزاد ہونے کی کوئی صورت نہ پائی تب چڑی مار سے کہنے لگی ’’اے عقل مند شخص ! فرض کر تو مجھ جیسی ننھی سی چڑیا کو پکڑ کر کھا بھی گیا تو اس سے کیا حاصل؟ خدا جانے تو اب تک کتنی گائیں ٗ کتنے دنبے اور بکرے بلکہ اونٹ ہڑپ کر چکا ہے۔ جب اتنے جانور کھا کر بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا تو میرے ذرا سے گوشت اور گنتی کی چند نرم و نازک ہڈیوں سے بھلا کیا بھرے گا؟ اس لیے تیری دانائی جواں مردی اور بلند نگہی کا تقاضا ہے کہ تو مجھے آزاد کر دے۔‘‘چڑی مار نے کہا ’’اگر میں تیری بات مان کر تجھے چھوڑ دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ میں نے تجھے پکڑنے میں دن رات ایک کر دیے ہیں ، تب تو ہاتھ آئی ہے۔ فرض کرو میں تجھے نہ کھائوں اور کسی کے ہاتھ بیچ ڈالوں، پھر بھی مجھے کچھ نہ کچھ تو مل ہی جائے گا۔‘‘چڑیا نے جواب دیا ’’مجھے فروخت کر کے بھلا تجھے کتنا مال ملے گا؟ یہی دو چار دس درہم اور وہ کتنے دن چلیں گے؟ لہٰذا یہ بات دماغ سے نکال دے اور میری بات سن۔ اگر تو مجھے آزاد کر دے گا تو تین ایسی بیش بہا نصیحتیں تجھے کروں گی جو ہمیشہ تیرے کام آئیں گی۔ ان میںسے پہلی نصیحت تو تیرے ہاتھ پر بیٹھے بیٹھے کر دوں گی۔ دوسری دیوار پر بیٹھ کروں گی اور وہ ایسی ہوگی کہ مارے خوشی کے تیرا خون چلوئوں بڑھ جائے گا۔ تیسری نصیحت جو اعلیٰ درجے کی ہوگی ، درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھ کر کروں گی۔ ان تینوں نصیحتوں پر عمل کر کے تو دنیا میںبڑا نام پائے گا۔‘‘چڑی مار کچھ دیر غور کرنے کے بعد راضی ہوگیا ، جال ڈھیلا کر دیا اور چڑیا پھدک کر اس کے ہاتھ پر آن بیٹھی۔ کہنے لگی ’’سن ، پہلی نصیحت یہ ہے کہ ناممکن بات ، خواہ کیسا ہی آدمی تجھ سے کہے ، اس پر یقین نہ کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر چڑیا پھر سے اڑی اور دیوارپر جا بیٹھی۔ اس نے دوسری نصیحت یہ کی ’’اے شخص! گزری ہوئی مصیبت کا غم مت کرنا اور گزری ہوئی آسائش کی مسرت فضول ہے۔‘‘چڑی مار نے کہا ’’اس دوسری نصیحت کا مطلب میں نہیں سمجھا۔ ذرا کھل کر بیان کر۔‘‘چڑیا نے جواب دیا ’’میرے پوٹے میں دس درہم وزن کا ایک ایسا قیمتی موتی چھپا ہوا ہے جس کی قیمت ہفت اقلیم میں کہیں نہیں۔ تو یہ موتی پاکر زندگی بھر کے لیے نہال ہو جاتا اور تیرے بال بچے شہزادوں کی سی عیش و عشرت میں دن بسر کرتے۔ مگر افسوس! کہ تو نے مجھے آزاد کر کے یہ بیش بہا موتی ہاتھ سے کھو دیا۔ یہ تحفہ تیری تقدیرمیں نہ تھا۔‘‘اتنا سننا تھا کہ چڑی ماریوں رونے چلانے اور ماتم کرنے لگا جیسے اس کا بچہ مرگیا ہو۔ بار بار ٹھنڈی آہیں بھرتا اور سینہ پیٹ کرکہتا تھا کہ ہائے! میں تو برباد ہوگیا۔ مجھ بے وقوف نے ایسی نادر چڑیا کو آزاد کیوں کر دیا۔ ہائے! وہ بھی کیسی منحوس گھڑی تھی جب یہ چڑیا آزاد ہوئی۔ اس نے مجھے ہتھیلی میں جنت کی جھلک دکھلا کر لوٹ لیا۔‘‘ یہ باتیں کہتا اور روتا جاتا تھا۔ جب خوب رو چکا تب چڑیا نے کہا :’’ارے او احمق! میں نے پہلے ہی تجھے نصیحت کر دی تھی کہ گزری ہوئی بات کا غم نہ کرنا۔ جب وہ بات ہو ہی چکی تو اب رونا پیٹنا اور کفِ افسوس ملنا کس کام کا؟ معلوم ہوتا ہے تو میری نصیحت کو سرے سے سمجھا ہی نہیں یا بہرے پن کی وجہ سے پوری بات نہیں سنی۔ میں نے تجھے پہلی نصیحت یہ کی تھی کہ ناممکن بات کا ہرگز یقین نہ کرنا ٗ خواہ وہ بات کیسا ہی آدمی تجھ سے کہے۔ ورنہ گمراہ ہو جائے گا۔ ذرا سوچ تو سہی ٗ مجھ ننھی سی جان کا پورا تن و توش تین درہم وزن سے زیادہ نہیں ہے۔ بھلا دس درہم وزن کا موتی میرے پوٹے میں کہاں سے آگیا۔‘‘یہ سن کر چڑی مار رونا دھونا بھول ٗ حیرت سے چڑیا کو تکنے لگا۔ سمجھا کہ بیشک ٹھیک کہتی ہے۔ میں نے پہلے اس طرف غور نہ کیا تھا۔ بولا:’’اے نازک بدن چڑیا! اب مہربانی کر کے وہ تیسری نصیحت بھی کرتی جا جس کا وعدہ تو نے کیا تھا۔‘‘چڑیا نے کہا ’’اچھی کہی۔ ارے بے وقوف! تو نے میری دو نصیحتوںپر کون سا عمل کیا جو تیسری نصیحت بھی مجھ سے سننا چاہتا ہے۔ وہ قیمتی نصیحت تجھ جیسے بے مغز شخص کے لیے نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر خوشی سے چہچہاتی ہوئی جنگل کی طرف اُڑ گئی۔