انتخاب مرحوم کی یاد میں پطرس بخاری
اسپیشل فیچر
ایک دن مرزا صاحب اور میں برآمدے میں ساتھ ساتھ کرسیاں ڈالے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ جب دوستی بہت پرانی ہو جائے تو گفتگو کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور دوست ایک دوسرے کی خاموشی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہی حالت ہماری تھی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ مرزا صاحب تو خدا جانے کیا سوچ رہے تھے۔ لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پر غور کر رہا تھا۔ دور سڑک پر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایک موٹرکار گزر جاتی تھی۔ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کبھی کسی موٹرکار کو دیکھوں، مجھے زمانے کی ناسازگاری کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے۔ اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تمام دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جا سکے۔ اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے سے گزر جائے کہ گرد و غبار میرے پھیپھڑوں، میرے دماغ، میرے معدے اور میری تلّی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آ کر علم کیمیا کی وہ کتاب نکل لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی۔ اور اس غرض سے اُس کا مطالعہ کرنے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آ جائے۔میں کچھ دیر تک آہیں بھرتا رہا۔ مرزا صاحب نے کچھ توجہ نہ کی۔ آخر میں نے خاموشی کو توڑا اور مرزا صاحب سے مخاطب ہو کر کہا۔مرزا صاحب۔ ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے؟مرزا صاحب بولے۔ بھئی کچھ ہو گا ہی نا آخر۔میں نے کہا۔ میں بتاؤں تمہیں؟کہنے لگے۔ بولو۔میں نے کہا۔ کوئی فرق نہیں۔ سنتے ہو مرزا؟ کوئی فرق نہیں۔ ہم میں اور حیوانوں میں۔۔۔ کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں! ہاں ہاں میں جانتا ہوں تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو۔ کہہ دو گے۔ حیوان جگالی کرتے ہیں، تم جگالی نہیں کرتے۔ ان کے دم ہوتی ہے۔ تمہاری دم نہیں۔ لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں لیکن ایک بات میں، میں اور وہ بالکل برابر ہیں۔ وہ بھی پیدل چلتے ہیں اور میں بھی پیدل چلتا ہوں۔ اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ جواب نہیں۔ کچھ ہے تو کہو۔ بس چپ ہو جاؤ۔ تم کچھ نہیں کر سکے۔ جب سے میں پیدا ہوا ہوں اور اس دن سے پیدل چل رہا ہوں۔پیدل۔۔ تم پیدل کے معنی نہیں جانتے۔ پیدل کے معنی ہیں سینۂ زمین پر اس طرح سے حرکت کرنا کہ دونوں پاؤں میں ایک ضرور زمین پر رہے۔ یعنی تمام عمر میرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں اور دوسرا اٹھاتا ہوں۔ دوسرا رکھتا ہوں پہلا اٹھاتا ہوں۔ ایک آگے ایک پیچھے، ایک پیچھے ایک آگے۔ خدا کی قسم اس طرح زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ حواس بیکار ہو جاتے ہیں۔ تخیل مر جاتا ہے۔ آدمی گدھے سے بدتر ہو جاتا ہے۔