دلکش خط نسخ کا ارتقا
اسپیشل فیچر
پانچویں صدی ہجری/ گیارہویں صدی عیسوی سے قرآن مجید کی کتاب کے لیے خط کوفی کا استعمال کم ہوتا گیا اور اس کی جگہ نسخ نے لے لی۔ خط نسخ کا موجد ایک عدیم النظیر خطاط ابن مقلہ (م328 ھ) ہے‘ جو الراضی باللہ (322 ھ/ 934ء تا 329 ھ/ 940ء) کا وزیر تھا۔ ابن مقلہ اس خط کو مذہبی عمل میں لایا اور اس نے املا کی صحت‘ ہندسی باقاعدگی اور حسن و رعنائی کا رجحان پیدا کرنے کے لیے خط میں اہم تبدیلیاں کیں۔ اس خط میں پہلی مرتبہ خطاطی کے اصول و قواعد کے لیے ناپ مقرر کیے گئے تاکہ موزونیت‘ یکسانیت اور تناسب قائم رہے۔ اس میں ہندسی ہیئت پیدا کر کے نقطوں کی پیمائش سے کام لے کر نسبتیں مقرر کی گئیں۔چھٹی سے بارہویں صدی ہجری (بارہویں سے سولہویں صدی عیسوی) میں نقاشی اور رنگ آفرینی کا استعمال قرآن مجید کے علاوہ عام کتابوں میں بھی ہونے لگا۔ ان کی آرائش کے لیے کبھی تو آخر میں بیل بوٹے بناتے تھے اور کبھی تصویر کے اردگرد چوکھٹوں کے حاشیے میں گلکاری کرتے تھے۔تیموری دور (771ھ/ 1329ء تا 906 ھ/ 1500ء) میں قرآن مجید کے علاوہ علمی و ادبی کتابوں کی خطاطی میں بھی زیب و زینت بروئے کار آئی جو ان کتابوںکی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہ کتابیں پودوں اور پرندوں کی شکل سے بھی مزین ہیں۔ اس دور کی رنگ آمیزی شیراز کے خطاطوں کی ایجاد ہے۔ شیرازی طرز کی رنگ آمیزی کا ایک نادر نمونہ ابو یحیٰی بن محمد قزوینی کی عجائب المخلوقات (مکتوبہ 813ھ/ 1410ء) ہے جو میٹروپولیٹن میوزیم میں ہے۔ اس کے سرورق پر ایرانی طرز میں فرشتے دکھائے گئے ہیں اور چینی طرز میں اژدھے اور دوسرے جانور۔ حاشیے کے نقش و نگار سیاہ رنگ کے ہیں۔ ان کے اندر طلائی سرخ اور سبز رنگ بھی استعمال کئے گئے ہیں اور اطراف بیلوں سے آراستہ ہیں۔ مذہب کے اس فن کی ہرات میں بھی ترقی ہوئی۔ تیموری دور کی شاندار اور عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اس دور میں خط نستعلیق کی ایجاد کو ایک عدیم النظیر خطاط میر علی تبریزی کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔صفوی دور کے خطی نسخوں کے نقش و نگار میں وہی حسن نظر آتا ہے جو دبستان ہرات کی خصوصیت ہے۔ زیبائش کے اعتبار سے بھی یہ نویں صدی ہجری کے نسخوں سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ بات خمسہ نظامی‘ مکتوبہ 931ھ کے سرورق سے عیاں ہے۔پاکستان میں بعض نمائندہ نامور خطاط عبدالمجید پروین رقم‘ تاج الدین زریں رقم‘ محمد صدیق الماس رقم‘ حافظ محمد یوسف سدیدی اور سید انور حسین نفیس رقم وغیرہ ہیں جنہوں نے قدیم خطاطوں کی پیروی کرتے ہوئے فن نستعلیق میں قابل ستائش اضافے کئے اور نوک پلک کے اعتبار سے اپنی انفرادیت بھی قائم کی۔ مشہور مصور صادقین نے خط نسخ میں آیات قرآنی کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے ہاں اکثر حرف کو اس طرح باہم ملایا جاتا ہے کہ ہر حرف کی کم و بیش اپنی اصل اور مکمل شکل برقرار رہتی ہے اور آخری حرف خوبصورت کشش کے ساتھ ایک دل نشین نوک پر ختم ہوتا ہے۔