گوتم بدھ کی زندگی
اسپیشل فیچر
گوتم بدھ کا اصل نام شہزادہ سدھارتھ تھا، وہ بدھ مت کا بانی ہے جو دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ سدھارتھ کپل وستو کے راجہ کا بیٹا تھا، جو نیپال کی سرحدوں کے نزدیک شمالی ہندوستان کاایک شہر ہے۔ سدھارتھ (جس کی ذات ’’گوتم‘ اور قبیلہ ’’شاکیہ‘‘ تھا) نیپال کی موجود سرحدوں کے بیچ لمبائی کے مقام پر 563 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ سولہ برس کی عمر میں اس کی شادی اس کی ہم عمر عم زاد سے ہوئی۔ شاہی محل میں پر تعیش ماحول میں اس کی پرورش ہوئی، تاہم وہ خود اس ماحول کا خوگر نہیں ہوا۔ وہ بے کل رہتا تھا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ بیشتر انسان غریب ہیں اوراس محرومی کے سبب مسلسل ابتلائوں میں گھرے رہتے ہیں۔ حتی کہ اہل ثروت بھی اکثرمایوس اورناخوش رہتے ہیں۔ نیز ہرشخص بیماری کا شکار ہوتا اورآخر کار مرجاتا ہے۔ قدرتی طور پر سدھارتھ نے غور کیا کہ کوئی ایسی کیفیت بھی ہے جو ان عارضی مسرتوں سے، جوبالآخر موت اور بیماری سے پامال ہو جاتی ہیں، معریٰ ہو۔انیتس برس کی عمر میں جب اس کے بچے کی پیدائش ہوئی، گوتم نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی موجودہ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرلے اور خود کوسچ کی تلاش کے لیے وقف کردے۔ وہ محل سے روانہ ہوگیا، اس نے اپنی بیوی، اپنے نومولود بچے اور تمام دنیاوی آسائشات کو ترک کردیا۔ وہ ایک مفلس یوگی بن گیا۔ کچھ عرصہ اس نے اس دور کے مشہور یوگی علماء سے حصول علم کیا، ان کے افکار کی مکمل آگہی حاصل ہوجانے کے بعد اس نے انسان کے غیراطمینان بخش مسائل کے اپنے حل وضع کیے۔ یہ خیال عام ہے کہ انتہا درجہ کاذہن سچ کے راستہ کو ہموار کرتا ہے۔ گوتم نے خود بھی ایک سنیاسی بننے کی کوشش کی، کئی سال وہ مسلسل فاقہ کشی اورخوداذیتی کے مراحل سے گزرا۔ پایان کار اسے ادراک ہواکہ جسم کو اذیت دینے سے ذہن میں ابہام پیدا ہوتا ہے، اسی لیے یہ ریاضت اسے سچ کی قربت نہ دے سکی۔ چنانچہ اس نے پھر سے باقاعدہ خوراک لینی شروع کی اور فاقہ کشی کو ترک کردیا۔خلوت میں ا س نے انسانی موجودگی کے مسائل پر استغراق کیا۔ آخر ایک شام جب وہ ایک عظیم الجثہ انجیر کے درخت تلے بیٹھا تھا، اسے اس چیستان کے سبھی ٹکڑے باہم یکجا ہوتے محسوس ہوئے۔ سدھارتھ نے تمام رات تفکر میں بتائی، صبح ہوئی تو اسے منکشف ہوا کہ اس نے حل پالیا تھا اور یہ کہ وہ اب ’’بدھ‘‘ بن گیا تھا جس کے معنی ایک ’’اہل بصیرت‘‘ کے ہیں۔ تب اس کی عمر پینتیس برس تھی۔زندگی کے پینتالیس برس اس نے شمالی ہندوستان میں سفر کرنے میں گزارے۔ وہ ان لوگوں کے سامنے اپنے خیالات کا پرچار کرتا جواسے سننے آتے تھے۔ 483 قبل مسیح میں اپنی وفات کے سال تک وہ اپنے ہزاروں پیروکار بنا چکا تھا۔ ہر چند کہ اس کے افکار تب لکھے نہیں گئے تھے۔ اس کے چیلوں نے اس کا حرف حرف یاد رکھا۔ یہ حروف نسل درنسل زبانی طورپر ہی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے۔ بدھ کی بنیادی تعلیمات کوبدھوں کے الفاظ میں ’’چار اعلیٰ سچائیاں‘‘ کے عنوان سے سمیٹا جاسکتا ہے۔ اول انسانی زندگی اپنی جبلی حیثیت میں دکھوں کا مسکن ہے۔ دوئم اس ناخوشی کا سبب انسانی خود غرضی اور خواہش ہے۔ سوم اس انفرادی خود غرضی اور خواہش کو ختم کیاجاسکتا ہے اور ایسی کیفیت پیدا کی جاسکتی ہے جس میں خواہشات اورآرزوئیں فنا ہوجاتی ہیں۔ اسے اصطلاحاً ’’نروان‘‘ کہا جاتا ہے۔ (اس کے لغوی معنی ’’پھٹ پڑنے‘‘ یا ’’تنسیخ‘‘ کرنے کے ہیں) چہارم اس خود غرضی اورخواہش سے فرار کا ذریعہ ’’آٹھ راست راہیں‘‘ ہیں۔ یعنی راست نقطہ نظر، راست سوچ، راست گوئی، راست بازی، راست طرز بودوباش، راست سعی اور راست ذہن اورراست تفکر اور یہ بات بھی ہے کہ بدھ مت ہر کسی کے لیے اپنی آغوش واکیے ہوئے ہے، نہ نسل کا مسئلہ ہے اور نہ ہندوئوں کے برعکس یہاں ذات برادری ہی کچھ اہمیت رکھتی ہے۔گوتم کی وفات کے بعد ایک عرصہ تک یہ نیامذہب ذراسست رفتاری سے پھیلا۔ تیسری صدی قبل مسیح میں عظیم ہندوستانی شہنشاہ اشوک نے بدھ مت اختیار کرلیا۔ اس کی پشت پناہی سے ہندوستان بھر میں بدھ مت کے اثرات تیزی سے پھیلے۔ بدھ مت ہندوستان سے باہر بھی مقبول ہوا۔ یہ جنوب میں سیلون تک پھیلا اورمشرق میں برماتک۔ وہاں سے بڑھ کر جنوبی ایشیا میں اس نے اپنے قدم جمائے اور ملایا تک پھیلا اور پھر آگے علاقے میں سرایت کر گیا جسے اب انڈونیشیا کہا جاتا ہے۔ بدھ مت کے اثرات شمالی علاقوں میں بھی مرتسم ہوئے، یہ تبت پہنچا اور آگے شمال کی طرف افغانستان اوروسطی ایشیا تک اس کے پیروکار پھیل گئے۔ اس نے چین میں بھی جگہ بنائی جہاں اسے بڑی پذیرائی ملی۔ یہاں سے آگے جاپان اورکوریا میں اس نے اپنے پیروکار پیدا کیے۔ لیکن ہندوستان میں ہی یہ مذہب 500ء کے بعد تنزل کاشکار ہونے لگا اور 1200ء تک یہ سمٹ کربہت مختصر طبقے تک باقی رہ گیا۔ دوسری جانب چین اور جاپان میں بدھ مت ایک بڑے مذہب کی حیثیت موجود رہا۔ تبت اور جنوبی ایشیا میں کئی صدیوں تک اس کی اہمیت میں چنداں تخفیف نہ ہوئی۔ بدھ کی موت کے کئی صدیوں بعد تک اس کی تعلیمات کوضابطہ تحریر میں نہیں لایا گیا۔ قدرتی طورپر یہ مختلف مسالک میں منقسم ہونے لگا۔ اس کی دوشاخیں اہم ہیں۔ ’’تھروید‘‘ جو جنوبی ایشیاء میں مقبول ہے اور جسے مغربی حکماء بدھ کی حقیقی تعلیمات کے قریب ترین مانتے ہیں۔دوسری شاخ ’’مہایانا‘‘ کہلاتی ہے جس کے پیروکار تبت، چین اورشمالی ایشیا میں اکثرت میں ہیں۔