انگریزی ادب کے چھ شہرۂ آفاق ناول
اسپیشل فیچر
ویسے تو انگلش لٹریچر بہت وسیع ہے اور اس میں ادب کا شوق رکھنے والوں کے لئے سبق آموزاور دلچسپ چیزوں کی کمی نہیں۔مگر ہر ایک کا اپنا اپنا ذہنی رجحان ہوتاہے اور اپنی اپنی پسند ہوتی ہے لیکن یہاں جو بات کہنے والی ہے وہ یہ کہ زندگی میں ایک بار ان ناولز کو ضرور پڑھیے گا۔انگریزی ادب میں ’’ برونٹے سسٹر ‘‘ کے نام سے مشہور تین بہنوں میں دوسرا نمبر ایملی برونٹے (1818 - 1848 ( کا ہے جس کا واحد شاہکار ناول ’’ وتھرنگ ہائٹ‘‘ پہلے نمبر پر ہے۔ یہ ناول یارک شائر فا ر م ہائوس میں دو ایسے خاندانوں کی کہانی ہے جن کی اپنے جذبات پر قابوپانے میںناکامی کا نتیجہ تشدد اور انتقام کی صورت میں نکلتا ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ’’ہیتھ کلف‘‘جو کہ ’’وتھرنگ ہائٹ ‘‘ پر رہنے والی ایک فیملی کا لے پالک ہے۔ کلف کو اس خاندان میں ’’کیتھی‘‘نامی لڑکی سے جذباتی محبت ہوتی ہے لیکن وہ ’’ایجرٹن نامی‘‘ایک شریف اور سادہ لوح آدمی سے شادی کر لیتی ہے لہٰذا محبت میں نا کامی کے بعد ’’ کلف ‘‘ مایوس کی حالت میں وہاں سے مفرور ہو جاتا ہے مگر کچھ عرصے بعد وہ ایک امیر ا و ر پڑھے لکھے آدمی کی صورت میں واپس آتاہے لیکن افسوس کہ ’’انتقامی ذہنیت‘‘جو اسکی تربیت میں شامل تھی ختم نہ ہوئی ۔ ناول ناکام محبت کا المیہ ہے۔ انگریزی ادب میں دوسرے نمبر پر برٹش مصنفہ ’’جارج ایلیٹ ‘‘ -1819 - 1880)) جن کا اصل نام (میری این ایونز ہے) کا ناول ’’مڈل مارچ‘‘ہے ۔جارج ابتدائی زندگی میں اپنے والد کی وفات تک ایک ایسے علاقے میں رہی جہاں اسے دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جس کا عکس اسکے سارے ناو لز میں نظر آتاہے۔ دوسرے ناولو ں کی طرح اس میں بھی انسانی نفسیات کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔ اس ناول میں مڈ لینڈ گائوں کے لوگوںکی قسمت کے بارے میں دلچسپ واقعات اور ان کی اندرونی کیفیت کو ا تنی مہارت سے پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو یوں لگتا ہے جیسے و ہ اپنے بارے میں پڑھ رہا ہے ۔تیسرے نمبر پر جارج آر ویل کا مشہور ناول Ninteen Eighty-Four ہے جو 1949ء میں شائع ہوا ۔جارج سو شلسٹ تھے۔ وہ برابری پہ یقین رکھتے تھے لہٰذا ان کے سارے ناولوں میں سیاسی رنگ واضح نظر آتاہے۔ اس ناول میں ایک ایسے سیاسی مستقبل کی پیش گوئی کی گئی ہے جب سارے کا سارا سیاسی نظام عوام کے کنٹرول میں ہو گا۔ اس میں مشہور نعرہ ’’بڑا بھائی آپ کو دیکھ رہا ہے ‘‘اس آنے والے نظام کی طاقت کا اظہار ہے جسکی ڈور عوام کے پاس ہو گی۔’’برونٹے سسٹر‘‘میں شارلوٹے (1816 -1855) سب سے بڑی ہیں۔ ایملی ان سے چھوٹی ہیں۔ ان کے ناولوں میں شدید جذباتی محبت کا عنصر غالب ہے جبکہ اس دور کے دو بڑے ناول نگار چارلس ڈکن اور ڈبلیو ۔ایم۔تھاکرے نے خود کو اس چیز سے دور رکھا ہے۔ شارلوٹے کا عظیم ناول ’’جین آئر ‘‘ہے جو کہ1847ء میں شائع ہوا ۔یہ ناول ان کی ذاتی زندگی کی کہانی ہے جب انہوں نے بطور ایک نرس کسی گائوں میں ایڈورڈنامی شخص، جو اس سے کبھی خوش نہ رہتا ،کے پاس کام کیا ۔لہٰذا یہ ناول شار لوٹے کی زندگی کے تلخ تجربات کا عکاس ہے ۔ ملکہ وکٹوریہ کے ابتدائی دور کا عظیم ناولسٹ چارلس ڈکنز 1812-1870)ء)کو مانا جاتاہے۔ اس کے ناولوں میں ’’عظیم توقعات‘‘ (Expectations Great)کو اولیت حاصل ہے۔ ناول کی کہانی ایک یتیم بچے’’پِپ‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔ اگر آپ نے کالج کے زمانے میں اس ناول کو پڑھا ،اور بعد میں بے ذائقہ سمجھ کر الماری میں رکھا ہوا ہے تو دوبارہ نکال کر پڑھیے تو پتہ لگے گا کہ پپ کا بچپن اسکی سخت مزاج بہن اور نرم دل بہنوئی کے پاس کیسے گزرا۔اور ایک یتیم بچہ کیسے اپنی محنت ،لگن،مستقل مزاجی اور مصمم ارادے سے بامِ عروج پر پہنچا ۔ ناول میںزندگی کے اتار چڑھائو اور تگ و د و کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے ۔جین آسٹن 1775-1817)ء )کے ناول انگلش معاشرے ، خاص طور پر گائوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کا عکس ہیں۔انہوں زندگی میںصرف چھ ناول لکھے یہ سب کے سب اپنی جگہ پر اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ روایت کے بر عکس اس نے عام لوگوںکی زندگی ، طور طریقوںاور انکے رہن سہن کو موضوع سخن بنایا ۔ ان کا زیادہ پڑھا جانے والا ناول ’’غرور اور تعصب ‘‘ (Pride and Prejudice) کے نام سے مشہور ہے جو انگلش معاشرے کی تصویر کشی کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔