کلاسیکی موسیقی اور راگ
اسپیشل فیچر
کلاسیکل راگوں پر مبنی موسیقی کی تشکیل میں پورے ہندوستان (برصغیر) کا حصہ ہے اگرچہ تمام ادوار میں مقامی اور علاقائی امتیازات اور فرق موجود رہے۔ ان میں خاص طور پر شمالی اور جنوبی ہندوستان کی موسیقی میں فرق ہے۔ کلاسیکی موسیقی کی روایت یکایک اعلیٰ شکل نہیں اختیار کر گئی اور کافی لمبے عرصے تک ویدوں کی روایت ہندو پجاریوں تک ہی محدود رہی۔ قدیم روایتوں کے مطابق صرف گائیکی ہی اہمیت رکھتی تھی۔ ساتھ ہی موسیقی کے لیے سنسکرت لفظ ’سامگیتا‘(Samgita)کے وسیع تر معنی ہیں، موسیقی اور رقص کے ساتھ گانے کا فن اور علم۔ ویدوں میں کافی سازوں کا ذکر موجود ہے جنہیں خود ویدوں کی بیان کردہ رسومات میں خال خال ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ رقص بھی ہاتھوں کی ایسی حرکات تک محدود تھا جو اپنے خاصے میں مذہبی تھیں۔ یہ کسی حد تک علامتی تھیں اور کچھ نہ کچھ موسیقی کے چلن کو یاد رکھنے کے لیے وضع کی جاتی تھیں۔ بعد میں یہ حرکات جنوبی ہندوستان کے رقص ’بھارت ناتیم‘ کی بنیاد بنیں جس کی نوعیت شمالی علاقوں کے رقص کی بہ نسبت زیادہ مذہبی ہے۔ پیلیکن تاریخِ موسیقی کے مطابق’’ساز اور رقص کے عناصر کی ترقی ہندوستان کے مقامی اثرات کے تحت تھی۔ مثال کے طور پر شِواجو اصل میں غیر آریائی دیوتا تھا بعد ازاں ہندو نٹ راجہ، رقص کا دیوتا ٹھہرا۔ ‘‘کلاسیکل گائیکی کی بڑی اقسام دھرپد اور خیال ہیں۔ اول الذکرمیں استھائی ،انترہ، سنچائی، ابھوگ؛ خیال میں استھائی انترہ ؛ ساز سنگیت میں الاپ، جوڑ، جھالا، گت اپنے تکنیکی امتیازات کے باوجود ایک خاصہ ضرور رکھتے ہیں۔ تمام مراحل ایک منطقی کُلیت بناتے ہیں۔ تمام گائیکی یا ساز سنگیت میں موجود جمالیاتی خیال کی مختلف پرتیں ہیں جن میں سے کوئی بھی پرت یا اس کا جزو اپنے آپ کو دہرا تا نہیںبلکہ پہلے کی بڑھت ہوتا ہے۔چونکہ ہر ایک پہلے کی بڑھت ہے اس لیے وہ خود اس سے نکلا ہے، اس لیے اس سے مختلف ہے۔ لیکن پہلا جزواور اس کی بڑھت ایک جیسے بھی ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور علیحدہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مماثلت بھی رکھتے ہیں۔ ہر گائیکی اور ساز سنگیت کے مختلف حصے اپنے موڈ میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن استھائی ہی سے انترہ نکلتا ہے اور انترہ وہ کچھ ہے جو استھائی سے نکلا ہے۔ موسیقی کے اجزا یا حصوں کی یہ چلت اور بڑھت مل کر راگ کی تاثریت سے شکل پاتے ہیں جو ایک طرح سے انہیں ضبط میں رکھنے والا اور اجتماعیت دینے والا اصول ہے۔ کلاسیکی موسیقی میں راگوں کی بنیادی بندشیں(سرگم) فطرت کے مظاہر سے متعلقہ سرگرمیاں بیان کرنے کے لیے ہیںیا پھر یہ تجریدی انسانی جذبوں کے اظہار کے لیے ہیں۔ اگر ملہار اور اس کی اقسام بارش کے موسم کی نمائندگی کرتی ہیں، تو توڑی کی اقسام دکھ اور بیچارگی کے اظہار کے لیے ہیں۔ لیکن یہ اظہار اس جذبے کا فقط خیال (notion)ہے کیونکہ تجرید کسی مقرونی صورتِ حال سے جڑت میں نہیں آتی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کلاسیکل راگ کی گائیکی ایک گویے پر منحصر ہے اور یہ دو آدمیوں کا کام نہیں، یعنی کسی بھی گائیکی میں ایک فرد اپنی قلبی واردات بیان کرتا ہے اور دوسرا خالی جگہ پُر کرنے لیے ہوتا ہے۔ اسے گویے اپنی زبان میں یہ کہتے ہیں کہ دوسرا گویا ’آواز لگانے‘ کے لیے ہوتاہے۔