داستانِ سکردو
اسپیشل فیچر
داستانِ سکردو سے دامن بچا کر سکردو سے واپسی بے وفائی کے مترادف ہو گی۔ سکردو کی کئی وجوہات تسمیہ بتائی جاتی ہیں او ر سب اسم با مسمیٰ ہیں۔سکر دو مندرجہ ذیل الفاظ میں سے کسی ایک کی بگڑی ہوئی شکل ہو سکتا ہے:سکندر آباد یا سکندر پور،سکندر اعظم سے منسوبسکر۔ما۔دو، تاروں بھر رات کی وادیسکر۔ دو،مقپون خاندان کے جد امجد سکر گیا لپو کی وادی ساگر۔دو،دو سمندروں یعنی دریائے سندھ اور شگر کی وادیمیں نے سرزمینِ سکردو پر قدم رکھا تو مجھے سخت حیرانی ہو ئی کہ وہ کون سر پھر ے تھے جنہوں نے پانچ صدی قبل مسیح میں سکردو آ کر مستقل رہائش اختیار کی جب کرہ ارض کا میدانی اور زرخیز حصہ بڑی حد تک غیر آباد تھا؟سکردو آج بھی آسانی سے قابلِ رسائی نہیں۔ بس کے سفر میں مسافر کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں تو فضائی سفر جہاز کے پندرہ طبق روشن کر تا ہے۔ ہفتوں تک جہاز کو سکردو آنے، اور آ جائے تو لینڈ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب مجھے علم ہوا کہ بلتستان سرسبز چراگاہوں کا دیس ہے اور اس کے کئی دریاؤں میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ لوگ سونے اور چارے کی تلاش میں یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے، تو حیرانی ختم ہو گئی۔ بلتستان کا اوّلین ذکر چین کے قدیم جنگ ناموں میں ملتا ہے۔ مارکوپولو نے اسکا ذکر ’’پولو‘‘ یا ’’پولا ‘‘ کے نام سے کیا ہے جو عربی میں ’’بولور‘‘ اور فارسی میں ’’بلاورستا ن ‘‘ بنا۔ چینی اور تبتی تاریخ دان اسے ’’ بلتی یُل ‘‘ کہتے ہیں جو بلتستان بن گیا۔ مغل مؤرخین بلتستان کو ’’تبت خورد‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ڈوگرہ حکمران سکردو کو صرف ’’کردو‘‘ کہتے تھے۔بلتستان میں انتقالِ آبادی تیسری یا چوتھی صدی قبل مسیح میں تین سمتوں سے ہوا۔(۱) تبت سے براستہ گلگت دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ (عالم پل تا سکردو روڈ) سفر کر کے آنے والے لوگ شگری، کچورہ، چُندا۔ اور بیانا مقپو میں آباد ہوئے۔ (۲) ہنزہ اور نگر سے آنے والے ہسپر لا اور اسکولی ہوتے ہوئے شگر پہنچے۔ (۳) جموں و کشمیر سے زوجی لا عبور کر کے آنے والے خپلو میں آباد ہوئے۔بلتی یُل کی آبادی میں اضافے کے بعد طاقت کا کھیل ناگزیر تھا تاکہ فاتح اور مفتوح کا فیصلہ ہو سکے۔ اس کھیل میں تبت نژاد ’’گیالپو سکر‘‘ کا خاندان فاتح رہا اور بلتستان کے حقوق حکمرانی حاصل کر کے شگری کو پایہ تخت قرار دیا۔ایک طویل دور حکومت کے بعد سکرگیالپو کے وارثوں پر ایسا وقت آیا کہ راجہ کے خاندان میں ایک خاتون مس شگری کے سوا کوئی وارثِ تخت نہ رہا۔ راجہ کے بارہ وزرا میں سے ہر ایک شگری کی شادی اپنے بیٹے سے کرنے کا خواہش مند تھا تاکہ اس کا بیٹا مستقبل کا راجہ قرار پائے۔ان حالات میں دیوتا مقپون یا شہزادہ ابراہیم مصر سے یا ایران سے آن ٹپکا اور سوئمبر جیت کرمس شگری کی سلطنتِ دل کے ساتھ ساتھ حکومت شگری کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ وزیر زادے شگری کے رخِ زیبا کی بجائے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور عظیم مقپون دور کا آغاز ہوا۔سیاسی لحاظ سے تاریخ سکردو کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ قبل مسیح تا مقپون دور بلتستان کا دورِ جاہلیت کہلاتا ہے۔ اس دور کے بارے میں تاریخ خاموش ہے اور درست حالات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔اس دور میں بلتستان کے باسی پہلے ’’ پون چھو‘‘ اور بعد میں ’’بدھ مت ‘‘ نامی مذہب پر عمل پیرا رہے۔ مقپون دور ساڑھے پانچ صدیوں (1290ء تا 1840ء) پر محیط اور عروج و زوال کے شاہکار افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا راجہ مقپون ابراہیم اور آخری احمد شاہ تھا۔ پندرھواں راجہ علی شیر خان انچن ’’ مقپون اعظم‘‘ اور لوک داستانوں کے سدا بہار ہیرو کے دیومالائی مقام پر فائز ہے۔ علی شیر خان کے جا نشینوں میں شیر شاہ، علی شاہ اور سلطان مراد جیسے افسانوی کردار ابھرتے رہے، لیکن اقتدار کا سورج نصف النہار کا سفر طے کرنے کے بعد خاندانی چپقلش کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر مائل بہ زوال رہا اور 1840ء میں ڈوگرہ سردار زور آور سنگھ کے قدموں میں غروب ہو گیا۔ زورآور سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا راجہ احمد شاہ مقپون سکردو، خپلو، شگر، کریس، کھرمنگ، طولتی، پرکوتہ، روندو اور استور کا مطلق العنان اور طاقتور حکمران تھا، لیکن اس کی حکومت خاندانی اور درباری سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ احمد شاہ مقپون کا بڑا بیٹا اور ولی عہد شاہ مراد نو عمری میں فوت ہو گیا۔شاہ مراد کے بعد اس کا بھائی محمد شاہ ولی عہدی کا امیدوار تھا۔احمد شاہ کی پہلی بیوی یعنی محمد شاہ کی والدہ فوت ہو چکی تھی اور دوسری بیوی دولت خاتون جو شگر کے راجہ کی بہن تھی، امرائے سلطنت پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکی تھی۔دولت خاتون نے محمد شاہ کی بجائے اپنے بیٹے محمد علی خان کے لیے فرمانِ ولی عہدی حاصل کیا اور محمد شاہ کو وادیِ استور کا والی مقرر کر دیا۔ محمد شاہ اس فیصلے کو قدموں تلے روندتا ہوا لاہور پہنچا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ سے مدد کا طالب ہوا۔ رنجیت سنگھ کشمیر اور بلتستان کے معاملات جموں کے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کے سپرد کر چکا تھا۔٭…٭…٭