گاما پہلوان…ایک غیر معمولی شخصیت وہ اپنے وقت کے رستم زماں تھے۔ کوئی پہلوان انہیں شکست نہ دے سکا
اسپیشل فیچر
یوں تو پاکستان میں فن پہلوانی طویل عرصے سے زوال پذیر ہے لیکن ایک زمانے میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برصغیر پاک وہند میں فن پہلوانی اپنے عروچ پر تھا اور یہاں سے پیدا ہونے والے کئی پہلوانوں نے پوری دنیا میں اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک ایسے پہلوان نے پوری دنیا میں شہرت حاصل کی جس کا نام آج بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کا نام ہے گاما پہلوان جنہیں گاما دی گریٹ بھی کہا جاتا ہے۔22مئی 1878ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے گاما کا اصل نام غلام محمد بخش تھا۔ 1910ء میں انہوں نے ورلڈ ہیوی ویٹ چیمپئن شپ جیتی۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ 52 سالہ کیرئیر میں انہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی۔ ان کا شمار تاریخ کے عظیم ترین پہلوانوں میں کیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق پہلوانوں کے ایک ممتاز گھرانے سے تھا۔اس گھرانے نے عالمی شہرت یافتہ پہلوان پیدا کیے۔ گاما جب چھ سال کے تھے تو ان کے والد محمد عزیز بخش پہلوان کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ان کی پرورش ان کے نانا نے کی۔ جب نانا اس جہاں سے رخصت ہوئے تو پھر ان کے چچا ادا نے ان کی پرورش کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اِدا خود بھی پہلوان تھے اور انہوں نے پہلوانی کے حوالے سے گاما کی ابتدائی تربیت کی۔1988ء میں ان کے جوہر سامنے آ گئے۔ جب انہوں نے صرف دس برس کی عمر میں ایک مقابلے میں حصہ لیا جو جودھ پور میں منعقد ہوا۔ اس مقابلے میں 400 سے زیادہ پہلوانوں نے حصہ لیا۔ اس مقابلے میں گاما کی شاندار کارکردگی پر جودھ پورکے مہاراجہ نے خصوصی انعام دیا کیونکہ وہ بہت کم سن تھے۔اس کے بعد داتیا کے مہاراجہ نے ان کی تربیت کے سب انتظامات کیے۔ گاما اکھاڑے میں 40 پہلوانوں کے ساتھ کشتی کیا کرتے تھے۔ وہ روزانہ 5000 بیٹھکیں اور 3000 پش اپس (ڈنڈ) لگایا کرتے تھے۔ ان کی روزانہ خوراک چار گیلن (15لیٹر) دودھ اور ڈیڑھ پائونڈ پسے ہوئے باداموں کی سردائی تھی۔ اس کے علاوہ وہ پھلوں کا جوس بھی پیتے تھے۔ پھر یہ سب کچھ ہضم کرنے کیلئے وہ کچھ دوسری غذائیں بھی کھاتے تھے۔ پروٹین اور توانائی سے بھرپور غذائیں کھانے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ان کے پٹھے انتہائی مضبوط ہو گئے۔17سال کی عمر میں انہوں نے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے رحیم بخش سلطانی والا پہلوان کو چیلنج کیا۔ رحیم بخش اس وقت ادھیڑ عمر تھے اور ہندوستان کے چیمپئن پہلوان تھے۔ ان کا قد سات فٹ تھا اور عام رائے یہی تھی کہ وہ آسانی سے 5 فٹ سات انچ کے گاما پہلوان کو ہرا دیں گے۔ ان کی صرف ایک خامی تھی کہ وہ ادھیڑ عمر تھے اور ان کے کیرئیر کا اختتام ہو رہا تھا۔ یہ کشتی کئی گھنٹے جاری رہی اور اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ رحیم بخش سلطانی والا سے مقابلہ گاما کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد یہ خیال کیا جانے لگا کہ ہندوستان کے پہلوانوں کے اگلے چیمپئن گاما ہوں گے۔گاما نے دنیا کے بڑے بڑے پہلوانوں سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ اپنے بھائی امام بخش کے ساتھ مغربی پہلوانوں سے مقابلہ کرنے کیلئے وہ انگلستان روانہ ہو گئے۔ انہیں چھوٹے قد کی وجہ سے فوری طور پر مقابلوں کی اجازت نہ دی گئی۔ لندن میں انہوں نے یہ چیلنج دیا کہ وہ کوئی بھی تین پہلوانوں کو 30 منٹ کے اندر چت کر سکتے ہیں۔ اس چیلنج کو بہت سے پہلوانوں نے مذاق سمجھا اور گاما کا تمسخر اڑایا۔ بہت عرصے تک کوئی بھی اس چیلنج کو قبول کرنے آگے نہ آیا۔ اب گاما نے کچھ اور ہیوی ویٹ پہلوانوںکو چیلنج دیا۔ انہوں نے سٹینس لاس زیسکو اور فرینک گوچ کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ یا تو وہ ان دونوں کو ہرا دیں گے وگرنہ دوسری صورت میں وہ انعامی رقم ان کے حوالے کر کے اپنے وطن لوٹ جائیں گے۔ سب سے پہلے اس چیلنج کو امریکی پہلوان بنجمن رولر نے قبول کیا۔ اکھاڑے میں گاما نے رولر کو ایک منٹ 40 سیکنڈ میں ہرا دیا۔ دوسرے دن انہوں نے 12 پہلوانوں کو شکست دی اور اس طرح انہیں سرکاری طور پر منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ میں شرکت کی اجازت مل گئی۔1910ء میں گاما پہلوان کو ورلڈ چیمپئن زیسکو سے مقابلے کا موقع مل گیا اور اس کیلئے 10ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔ زیسکو کا شمار اس وقت دنیا کے ممتاز ترین پہلوانوں میں ہوتا تھا اور اب اسے گاما پہلوان سے مقابلے کا چیلنج درپیش تھا۔ اس مقابلے کی انعامی رقم 250 پائونڈ تھی۔ صرف ایک منٹ کے اندر زیسکو اکھاڑے میں گر پڑا اور دو گھنٹے 35 منٹ تک اسی حالت میں رہا۔ کچھ لمحات ایسے تھے جب زیسکو کھڑا ہو جاتا تھا لیکن پھر گر پڑتا تھا۔ اس کے بعد زیسکو نے دفاعی حکمت عملی اختیار کر لی اور اس نے رسوںکا سہارا لینا شروع کر دیا۔ تین گھنٹے تک زیسکو بڑی مشکل سے مقابلہ کرتا رہا اور پھر اس مقابلے کو برابر قرار دے دیا گیا۔ زیسکو کی شکست سے بچنے کی حکمت عملی کی وجہ سے اس کے مداحوں نے شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ ان دونوں کے دوبارہ مقابلے کا اعلان کیا گیا لیکن زیسکو سامنے نہیں آیا اور گاما کو فاتح قرار دے دیا گیا۔اس دورے کے دوران گاما نے دنیا کے ممتاز پہلوانوں کو شکست دی۔ا ن میں امریکہ کے بجمن رولر‘ فرانس کے مورس دراز‘ سوئزرلینڈ کے جوہن لیمن اور سویڈن کے جیسی پیٹرسن شامل ہیں۔ اب گاما نے ان پہلوانوںکو چیلنج دیا جو ورلڈ چیمپئن کہلوانے کے دعویدار تھے۔ ان سب نے گاما سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد گاما نے 20 انگریز پہلوانوں کو مقابلے کا چیلنج دیا۔ اس نے کہا کہ وہ سب کو شکست دے گا یا پھر انعامی رقم دے دے گا۔انگلستان سے واپسی کے بعد گاما نے الہ آباد میں ایک بار پھر رحیم بخش سلطانی والا سے مقابلہ کیا۔ اس مقابلے میں گاما نے رحیم بخش کو ہرا دیا اور رستم ہند کا اعزاز حاصل کر لیا۔گاما پہلوان نے ساری زندگی شکست نہیں کھائی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ 1960ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ لاہور میں موہنی روڈ کے علاقے میں مقیم تھے۔ یہاں ہندو بھی خاصی تعداد میں رہتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فسادات کے وقت انہوں نے بے شمار ہندوئوں کی جانیں بچائیں اور پھر انہیں سرحد تک چھوڑ کر آئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیگم کلثوم نواز شریف گاما پہلوان کی نواسی ہیں۔ گاما پہلوان جیسی شخصیت کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔٭…٭…٭