پھٹا ہوا دودھ خراب نہیں ہوتا
اسپیشل فیچر
دودھ کی اگر مناسب حفاظت نہ کی جائے تو یہ یوں تو عام حالات میں بھی خراب ہو جاتا ہے لیکن برسات اور گرمی کے موسم میں تو یہ زیادہ دیر تک ٹھیک نہیں رہتا اور حفاظتی تدابیر کرنے کے باوجود بھی پھٹ جاتا ہے اور پھٹ جانے پر اکثر ناکارہ سمجھ کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ خراب ہونے اور پھٹنے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ پھٹے ہوئے دودھ میں کوئی بھی نقصان دہ بات نہیں ہوتی بلکہ بعض صورتوں میں تو ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کو جنہیں عام دودھ ہضم نہیں ہو پاتا پھٹا ہوا دودھ پینے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ یہ آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے اور اس میں عام دودھ کی ساری صفات اور اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر کبھی دودھ پھٹ جائے تو اسے پھینکنا نہیں چاہیے بلکہ اسے ضروری استعمال میں لانا چاہیے۔ اس کا پانی نتھار کر الگ کر لیں اور بقایا جو چھینا (پنیر) بچے اسے استعمال کریں جس طرح خالص دودھ کو پھاڑ کر چھینا بنایا جاتا ہے اسی طرح پھٹے ہوئے دودھ کا بھی چھینا ہوتا ہے۔ پھٹے ہوئے دودھ کے چھینے میں شکر ملا کر پکانے سے وہ بے حد لذیز بن جاتا ہے اور بچے اسے بہت پسند بھی کرتے ہیں اور پھٹے ہوئے دودھ سے دہی بھی جمایا جا سکتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں لوگ آموں کا شربت بناتے ہیں اور کبھی کبھی اس میں دودھ اور چینی ملا کر پیتے ہیں اس لئے اگردودھ پھٹ جائے تو اسے اچھی طرح بلو کر آم کے شربت میں ملا کر پینا چاہیے ۔ اس کے علاوہ فروٹ سلاد جس میں گاڑھا دودھ ملایا جاتا ہے، پھٹے ہوئے دودھ کو اچھی طرح پھینٹ کر اس میں ملانے سے اس فروٹ سلاد کا ذائقہ اور لذت بڑھ جاتی ہے۔ پھٹے ہوئے دودھ کے استعمال میں کوئی نقصان نہیں ہوتا‘ بشرطیکہ دودھ اسی دن کا ہو یعنی 12گھنٹے سے پہلے کا نہ ہو۔پھٹے ہوئے دودھ سے بعض گھریلو خواتین طرح طرح کی مٹھائیاں بناتی ہیں مثلاً رس گلے وغیرہ لیکن اگر چھینا کافی زیادہ مقدار میں نہ ہو تو پھر اس کو ترکاری بنانے کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں۔ چھینے کی ترکاری بہت زیادہ مزیدار اور لذیز بنتی ہے۔ اسے گھی میں سینک کر یا تل کر ہلکا سرخ کر لیں پھر مصالحہ دار ترکاری بنا لیں۔دودھ چھان لینے کے بعد جو پانی نکلتا ہے وہ بھی ایک مفید اور کارآمد چیزہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔یہ پانی پیٹ کے امراض جیسے پیچس وغیرہ اور انتڑیوں کی بیماری اور ٹائیفائیڈ بخار میں دیا جاتا ہے اس لئے پھٹے ہوئے دودھ کا چھینااور پانی دونوں ہی مفید اور کارآمد ہوتے ہیں۔٭…٭…٭