سرسید سے حضرت قائداعظم ؒ تک قیام پاکستان کے اہم مرحلے آزادی کی قدر وقیمت و ہی جانتا ہے جس نے غلامی دیکھی ہو
اسپیشل فیچر
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے سارا غصہ مسلمانوں پر نکالا اور ان پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی ہر شعبے میں مسلمان زوال کا شکار ہو گئے۔ اس وقت مسلمانوں کی راہنمائی اور ان کو سہارا دینے کے لیے سرسید احمد خان میدان میں آئے۔ سرسید وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان بننے میں پہلی اینٹ رکھی۔ سرسید نے جدوجہد کا یہ سفر تعلیمی اداروں کے اجرا ء سے شروع کیا۔ ایم اے او ہائی سکول کے بعد کالج کا قیام۔ سائنٹیفک سوسائٹی کاقیام، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ،محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سب سرسید کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس وہ ہی پلیٹ فارم ہے جس کے سالانہ اجلاس 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ بھی سرسید نے کیا تھا۔ 1898ء سرسید احمد کی وفات کے بعد نواب محسن الملک کو علی گڑھ کالج کا سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ آپ نے دن رات محنت کی اور مسلمان نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب رکھا۔نواب محسن الملک نے علی گڑھ میں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کو قائم کیا۔ جس کے ذریعے نہ صرف اردو کا تحفظ ممکن ہوا بلکہ بے شمار کتب منظرعام پر لائی گئیں۔ 1906ء میں نواب محسن الملک نے ہی شملہ وفد تشکیل دیا جس نے وائسرے ہند سے ملاقات کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ اور اس وفد نے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ مسلمان ہندو اکثریت کے مقابلے میں اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔نواب وقار الملک وہ شخصیت ہیں جن کی قیادت میں 1906ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس موقع پر نواب وقار الملک نے صدارتی خطبے میں کہا :’’آج جس غرض سے ہم لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں اس کی کوئی نئی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان میں جس وقت سے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی گئی ہے اس وقت سے یہ ضرورت بھی پیدا ہو گئی تھی۔سرسید نے نیشنل کانگریس کے بڑھتے ہوئے اثر سے متاثر ہو کر پرزور کوشش کی کہ مسلمان اپنی بہتری اور حفاظت کے لیے کانگریس میں شرکت نہ کریں۔‘‘کانگریس نے ہندوئوں کے مفادات کو تحفظ دیا اور مسلمانوں کو نظرانداز کیا جس کی وجہ سے مسلم لیگ کا قیام ناگزیر تھا۔مسلم لیگ نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور الگ وطن کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ سید امیر علی ایک ممتاز قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے سکالر بھی تھے۔ سید امیر علی نے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے سیاسی تنظیم’’ نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن ‘‘ قائم کی جس کے مقاصد مسلمانوں کی سیاسی تربیت کرنا، مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کرنا اور ہندوستان کے مختلف مذاہب اور مختلف نسلوں کے درمیان خوشگوار جذبات کو فروغ دینا شامل تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، معاشی حقوق کے لیے بہت کام کیا۔ 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کا خیر مقدم کیا اور 1908میں مسلم لیگ کی ایک شاخ لندن میں قائم کی، ان کی کتاب Spirit of Islam کو اہمیت حاصل ہے۔ محمد علی جوہر کا شمار ان مسلم راہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جوش قیادت اور اپنی شخصیت سے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ یہ سرسید احمد کے علی گڑھ کالج کا ہی ثمرتھے۔ جنہوں نے مسلمانوںکے مسائل کو اجاگر کیا اور ان کی آواز اپنے اخبارات ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ کے ذریعے بلند کی۔ آپ کو قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، تحریک خلافت میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا اور ترک بھائیوں کے لیے حکومت پر پریشر بنائے رکھا جس کا منہ بولتا ثبوت آج ترکی کے سلیبس میں پاکستانیوں کے لیے ’بھائی‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔1930ء میں گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کی اور تقریر میں فرمایا: میں اپنے ملک میں اس صورت میں واپس جانا چاہتا ہوں جب آزادی کا پروانہ میرے ہاتھ میں ہو وگرنہ میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جائوں گا۔ میں ایک خودمختار ملک میں مر جانے کو ترجیح دوں گا جب تک یہ آزاد ہے اور اگر تم ہندوستان میں ہمیں آزادی نہیں دیتے تو تمہیں میرے لیے یہاں ایک قبر تیار کرنی پڑے گی۔‘‘چوہدری رحمت علی کا شمار ان قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے الگ آزاد مسلم ریاست کا تصور دیا۔ چوہدری رحمت علی نے ’’پاکستان قومی تحریک‘‘ کا آغاز کیا۔ 1933ء میں اس تحریک نے \"Now or Never\" کے عنوان سے پمفلٹ نکالا۔ اس پمفلٹ میں پنجاب ،صوبہ سرحد، کشمیر، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی۔ چوہدری رحمت علی نے پنجاب، افغانی صوبہ، کشمیر او رسندھ کے پہلے حروف کے ساتھ بلوچستان کے آخری تین حروف ملا کر پاکستان کا لفظ تخلیق کیا۔ آپ لفظ پاکستان کے خالق ہیں Now or Never پمفلٹ میں آپ نے لکھا ہے کہ’’موجودہ ہندوستان نہ تو ایک ملک ہے اور نہ ہی ایک واحد قوم کا وطن ہے۔ حقیقت میں تاریخ میں پہلی مرتبہ انگریزوں نے اس کو ایک ریاست کا درجہ دیا ہے۔ یہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ ماضی میں کبھی ہندوستانی قوم کا حصہ نہیں رہے بلکہ اس کیاانہوں نے ابتداء سے لے کر انگریزوں کی آمد تک اپنی الگ قومیتوں کے وجود کو برقرار رکھا ہے۔‘‘مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت ایک بلند پایہ ادیب، شاعر اور نڈر صحافی تھے۔ آپ نے ’’زمیندار‘‘ اخبار کے ذریعے مسلمانوں کی رہنمائی کی اور قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ان کی بے پناہ خدمات کا اعتراف قائداعظم نے 1937ء میں بادشاہی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کیا:’’مجھے ظفر علی خان کی طرح پنجاب میں چند لوگ اور مل جائیں تو پھر مسلمانان ہند کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، مولانا نے تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔‘‘ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو عالم اسلام کا عظیم ترین فلسفی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مفکرِ پاکستان ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ آپ نے 1930ء میں اپنے خطبہ الہ آباد کے دوران پاکستان کا تصور پیش کیا اور اسلامی ریاست کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:’’میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ برطانوی مملکت کے اندر یا باہر خودمختار حکومت مجھے شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر دکھائی دیتی ہے۔‘‘علامہ اقبال نے خودی کے فلسفے کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کیا اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئوں کو راستہ دکھایا۔ ان کی تصانیف میں بانگِ درا، بالِ جبریل، رموزخودی، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز بہت اہم ہیں۔برصغیر پاک و ہند کے مسلمان اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ انہیں محمد علی جناحؒ جیسا لیڈر ملا، جس کی مخالف بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ بقول جواہر لال نہرو’’حضرت قائداعظمؒ کی اعلیٰ سیرت و کردار وہ مؤثر حربہ تھی جس کے ذریعے انہوں نے اپنی زندگی بھر کے معرکے سر کیے۔‘‘بقول میسولینی محمد علی جناح ایسی تاریخ ساز شخصیت ہیں جوکئی صدیوں میں جا کر پیدا ہوتی ہے۔ نہرورپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے حضرت قائداعظمؒ نے 1929ء میں چودہ نکات پیش کیے جنہوں نے مسلمانوں کا موقف واضح کر دیا۔23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہورمنظور ہوئی ،اسے ہندو میڈیا نے قراردادِ پاکستان قرار دے دیا۔ آپ نے صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ :’’اگر حکومت برطانیہ برصغیر کے باشندوں کے لیے یہ چاہتی ہے کہ ان کو امن اور خوشی حاصل ہو اور اس کی یہ خواہش واقعی مخلصانہ ہے تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے بڑی اقوام کے جداگانہ قومی وطن منظور کیے جائیں۔ جن میں وہ خود اختیاری کے ساتھ قومی ریاستیں قائم کر سکیں۔‘‘اوربلا ٓخر قائداعظم محمد علی جناح کی بدولت پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا گیا اس کے لیے بے شمار قربانیاں دینا پڑیں۔یہ تحریک آزادی کے وہ لیڈر ہیں جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو راہ دکھائی اور ان کو پاکستان جیسا ملک دیا۔ تقسیم کے وقت بے شمار گمنام ہیروں بھے تھے جنہوں نے آزادی کی قیمت ادا کی اور بے شمار کہانیاں ہیں۔ دراصل آزادی کی قدر وہ ہی جانتا ہے جس نے غلامی دیکھی ہو۔ ہمیں آج کے دن تجدید عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اس قوم و ملت کے لیے دن رات محنت کریں گے اور اس کو دنیا کی صف اول کی طاقت بنا کر دم لیں گے۔٭…٭…٭