علامہ اقبالؒ کے والدین
اسپیشل فیچر
میں نے علامہ اقبالؒ کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب کو پہلی مرتبہ 1911ء میں دیکھا تھا جب وہ رواز ہوسٹل میں علامہ کی نظم ’’ شکوہ‘‘ سننے کے لیے تشریف لائے تھے۔ ان کا انتقال 1930ء میں سیالکوٹ میں ہوا۔ علامہ اقبالؒ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ فارسی زبان کی اچھی خاصی استعداد رکھتے تھے اور علامہ کی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کو بآسانی سمجھ لیتے تھے۔ ایک مرتبہ علامہ اقبالؒ نے دوران گفتگو فرمایا تھا کہ میں نے والد صاحب کی سہولت کے لیے مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کو جلی قلم سے لکھا ہے تاکہ وہ پڑھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کریں۔ وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں اکثر علامہ کی نظمیں سننے کی غرض سے تشریف لاتے تھے۔ چنانچہ انجمن کی مختصر تاریخ میں لکھا ہے: 1900ء میں انجمن کے سٹیج پر شاعر اسلام علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبالؒ کا طلوع ہوا اور آپ نے ایک نہایت رقت آمیز نظم موسومہ ’’نالہ یتیم‘‘ اپنے مخصوص رنگ اور درد انگیز آواز میں پڑھی۔ اس وقت سامعین کے تاثر کی حالت احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتی۔ ہر دیدہ اشک ریز اور ہر قلب مضطر تھا۔ وجدان کی یہ کیفیت تھی کہ جب منشی عبدالعزیز مرحوم (پیسہ اخبار) نے ممدوح کو نظم کے چند بند پڑھنے کے بعد اس غرض سے روک دیا کہ نظم مذکور کی مطبوعہ کاپیاں، جن کی تعداد کئی صد تھی، فروخت کر لی جائیں تو یہ تمام جلدیں آناً فاناً فروخت ہو گئیں لیکن مانگ بدستور تھی۔ چنانچہ بعض حضرات نے خرید کردہ جلدیں اس شرط پر انجمن کو مکرر دے دیں کہ کوئی جلد پچاس روپے (جو زمانے کے اعتبار سے بڑی رقم تھی)سے کم میں فروخت نہ ہو۔ چند لمحوں میں وہ بھی بک گئیں۔ خود علامہ کے والد ماجد مرحوم نے، جو اس وقت گیلری میں تشریف فرما تھے، سولہ روپے میں ایک جلد خریدی تھی۔میں نے ’’ زبور عجم‘‘ کی اشاعت پر ایک مضمون روزنامہ ’’ انقلاب‘‘ میں 24 جولائی 1927ء کو لکھا تھا۔ جسے علامہ کے والد ماجد نے بھی پڑھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار ایک خط میں کیا جو انہوں نے علامہ کو لکھا تھا۔علامہ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی امام بی بی تھا۔ وہ ایک ہر دلعزیز خاتون تھیں اور علامہ ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے۔ جب 1914ء میں وہ انتقال فرما گئیں تو علامہ نے ان کی وفات پر ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے نام سے ایک رقت انگیز مرثیہ تحریر فرمایا جو ’’ بانگ درا‘‘ میں شامل ہے۔ حضرت اکبر الہٰ آبادی نے بھی مرحومہ کی وفات پر ایک قطعہ تاریخ وفات لکھا تھا جو ان کے مزار پر کندہ ہے۔علامہ کی چار بہنیں تھیں اور ایک بڑے بھائی تھے جن کا نام شیخ عطا محمد تھا۔ ان سے وزیر آباد اور پھر لدھیانہ میں راقم نے نیاز حاصل کیا تھا۔میں نے علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کو پہلی مرتبہ 1922ء میں لاہور میں دیکھا تھا جب وہ ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ انہی دنوں علامہ نے انار کلی والے مکان کو چھوڑ کر میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ ان کے بڑے بھائی شعبہ انجینئرنگ میں ملازم رہے تھے لہٰذا ان کی معرفت مذکورہ کوٹھی میں کچھ عمارتی رد و بدل کرانا تھا۔ چنانچہ 1923ء میں جب علامہ کو ’’ سر‘‘ کا خطاب ملا تو یہ مکان بھی درست ہو چکا تھا۔ شیخ عطا محمد کی قوت سماعت کمزور تھی اور وہ اونچا سنتے تھے۔ علامہ صاحب اپنے بڑے بھائی کا بہت احترام کرتے تھے اور انہیں ’’ بھا جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔علامہ اقبالؒ کبھی کبھی اپنے سفر بلوچستان کا تذکرہ بھی کیا کرتے تھے جو انہوں نے 1903ء میں کیا تھا۔ اس سفر میں ان کا پرانا خدمتگار علی بخش بھی ان کے ہمراہ تھا۔ سفر کی غرض و غایت یہ تھی کہ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب ان دنوں بلوچستان میں تعینات تھے اور بعض شرپسندوں نے سازش کر کے انہیں ایک فوجداری مقدمے میں ملوث کر لیا تھا۔ چنانچہ علامہ اقبالؒ خود بلوچستان کے شہر فورٹ سنڈیمن تشریف لے گئے۔ ان کی کوششوں سے ان کے بھائی باعزت طور پر بری ہو گئے اور ملازمت پر بحال رہے۔اس کے بعد جب شیخ عطا محمد صاحب کا تبادلہ ایبٹ آباد میں ہو گیا تو علامہ بھی ایک مرتبہ وہاں تشریف لے گئے۔ وہاں کے اہل علم حضرات کے اصرار پر آپ نے وہاں ایک لیکچر بھی دیا جس کا عنوان تھا’’ قومی زندگی‘‘ یہ لیکچر رسالہ ’’ مخزن‘‘ کے دو شماروں یعنی اکتوبر1904ء اور مارچ1905ء میں شائع ہو چکا ہے۔1911ء میں شیخ عطا محمد مرحوم کا تبادلہ کمیبل پور میں ہوا تو علامہ وہاں بھی تشریف لے گئے۔ وہ ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کی عزت کرتے تھے اور ان کے لیے تقویت کا باعث بنتے تھے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کے بڑے بیٹے آفتاب اقبال کو اپنے چچا سے بعض شکایات بھی تھیں۔ یہ خاندانی نوعیت کی شکایات تھیں۔ جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں۔ شیخ عطا محمد صاحب کا انتقال 22 دسمبر 1941ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر اسی برس کے قریب تھی۔علامہ کو اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد مرحوم کی اولاد بھی بہت عزیز تھی اور وہ ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام کے زمانے میں انہوں نے شیخ صاحب کے چھوٹے بیٹے مختار احمد کو خود تعلیم دلوائی اور پھر ملازم کروایا۔