احمد فراز …ایک بے مثال شاعر مزاحمتی رویوں اور رومانس کا شاندار امتزاج ان کی شاعری کا خاصہ ہے
اسپیشل فیچر
ماہ اگست میں اُردو کے ایک عدیم النظیر شاعر احمد فراز اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ۔اُردو کے کم ہی شاعر ایسے ہوں گے جنہیں فراز جتنی مقبولیت اور پذیرائی ملی ۔بعض نقاد انہیں دوسرا فیض احمد فیض بھی کہتے ہیں ۔فیض کا شعری فلسفہ ہمیں کہیں کہیں فراز کے ہاں بھی ملتا ہے ۔ویسے تو ساحر لدھیانوی کے ہاں بھی اس فکر کی پرچھا ئیاں ملتی ہیں ۔لیکن ان کے ہاں لطافت کی بجائے اُداسی اور یاسیت کے سائے ملتے ہیں اور حیات نے انہیں جو تلخیاں دیں انہوں نے انہی کا اظہار اپنی شاعری میں کیا ۔فراز کے ہاں یہ تجربات نہیں۔ ان کا رومانس لطافت اور نزاکت سے بھرا پڑا ہے اور اس میں انہوں نے جو تجربات اور مشاہدات پیش کیے ہیں وہ شاید کم ہی شعرا کے حصے میں آئے ہیں ۔احمد فراز 12جنوری 1931کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا ۔ ان کے بھائی مسعود کوثر پیپلز پارٹی کے پچھلے دورمیں خیبر پختونخواہ کے گورنر رہے ہیں جبکہ ان کے بیٹے شبلی فراز تحریک انصاف کے رہنما ہیں ۔احمد فراز اپنے خاندان کے ہمراہ پشاور چلے آئے۔ انہوں نے پشاور کے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی ۔اور پشاور یونیورسٹی سے ہی اُردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے تو فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری سے ان کے بڑے اچھے تعلقات قائم ہو گئے ۔ان دونوں شعرا نے فراز کو بہت متاثر کیا اور وہ ان کیلئے رول ماڈل بن گئے ۔پشاور یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسی یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دینے لگے ۔احمد فراز کو جدید شعرا میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ان کا انداز تحریر سادہ اورسلاست سے بھر پور ہے ۔لیکن اس میں حد درجہ نفاست پاتی جاتی ہے ۔عام آدمی بھی ان کی شاعری کو بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے ۔احمد فراز نے سب سے پہلا شعر اُس وقت لکھا جب ان کے والد ان کیلئے عید کے کپڑے لائے۔ انہیں یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انہوں نے اپنے بھائی کیلئے خریدے گئے کپڑے پسند کیے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا ۔سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سےلائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے احمد فراز کی شاعر ی میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انہوں نے فوجی حکومتوں کے خلاف بہت کچھ لکھا ۔ضیا الحق کے دور میں انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔اس گرفتاری کے بعد انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔ وہ چھ سال تک برطانیہ ‘کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ پھر وہ 1988میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئیں۔ انہیں پہلے اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فائونڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائص سر انجام دیتے رہے ۔انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازاگیا۔ آخری برسوں میں وہ کہتے تھے کہ میں اب تب لکھتا ہوں جب میرے اندر سے مجھے لکھنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔اپنے گرو فیض احمد فیض کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے انہو ں نے اپنی بہترین شاعری اس وقت تخلیق کی جب وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ انہیں ہلال امتیاز ‘ ستارہ امتیاز اور موت کے بعد ہلال پاکستان دیا گیا ۔ان کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں ‘نایافت ‘ تنہا تنہا ‘ سب آوازیں میری ہیں اوربے آواز گلی کوچوں میں‘ ‘شامل ہیں۔احمد فراز کی شاعری میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل سے پیدا ہونے والے احساسات اور جذبات بھی اپنی پوری شدت سے ملتے ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس محدود نہیں وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہیں اپنی اقدار کی پامالی کا بہت دکھ تھا۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے ۔محبت ان دِنوں کی بات ہے فراز ؔجب لوگ سچے اور مکان کچے تھے ان کی کچھ غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں ۔خاص طور پر فلم ’’انگارے ‘‘ اور ’’محبت ‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسیک کا درجہ اختیار کر گئیں ان دونوں غزلوں کو مہدی حسن نے گایا تھا اور یہ بالترتیب ندیم اورمحمد علی پر عکس بندکی گئی تھیں۔ ’’انگارے ‘‘میں یہ غزل شامل کی گئی۔اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں اور ’’محبت‘‘ میں یہ شاہکار غزل فلمبند کی گئی رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کیلئے آآپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آنوجوانوں میں احمد فراز جتنے مقبول ہوئے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ان کے شعری مجمو عوں کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہوئے ۔احمد فراز کو فلمی گیت لکھنے کی بھی کئی بارپیش کش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلمی شاعری ان کا میدان نہیں۔ ایک دفعہ ماسکو میں ان کی ملاقات بھارت کے مشہور اداکار اور ہدایت کار راج کپور سے ہوئی ۔راج کپور بھی احمد فراز کے بڑے مداح تھے ۔انہوں نے فراز سے کہا کہ وہ ان کی فلموں کیلئے نغمات لکھیں۔ اس کیلئے انہیں بھاری معاوضہ دیا جائے گا۔لیکن احمد فراز راج کپور کی اس پیش کش سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ انہو ں نے طنزیہ انداز میں کہا یار تم تو بنیے کی طرح بات کر رہے ہو ۔ میں اس سوچ کا آدمی نہیں ہوں ۔اب ذیل میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں احمد فراز کی شاعری کے کچھ نمونے پیش کر رہے ہیں ۔آنکھ سے دور نہ ہو دِل سے اتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گااب دل کی تمنا ہے تو اے کاش یہی ہو آنسو کی جگہ آنکھ سے حسرت نکل آئے اور فرازؔ چاہیے کتنی محبتیں تجھے مائوں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیاتو خدا ہے نہ میرا عشق فرشتوں جیسا دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں کیوں نہ دوست ہم جدا ہو جائیں کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کیلئے آزندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوہِ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسااور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیساجو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانامجھے گماںبھی نہ ہو اور تم بدل جانا سنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بات کرتا ہے تو پھول جھڑتے ہیں اگر یہ بات ہے تو بات کر کے دیکھتے ہیں 25اگست 2008کو یہ لاثانی شاعر عالم جاوداں کو سدھار گیا۔ ان کی لازوال شاعری کو کون بُھول سکتا ہے کوئی بھی نہیں ۔٭…٭…٭