روحانی سکون کی بنیادیں
اسپیشل فیچر
نظریۂ شخصیت پر بحث کرتے ہوے اشرف علی تھانوی کے حوالے سے ڈاکٹر رضوی رقم طراز ہیں۔ انسان کیا ہے؟ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ انسان کس چیز کا نام ہے مختلف ماہرین نے ہر زمانہ میں تحقیق کا در وا کیا ہے؟ کسی نے کہا انسان بدن کا نام ہے۔ کسی نے کہا روح کا نام ہے۔ کسی نے کہا انسان بہت سے اوصاف کا مالک ہے۔ مثال کے طور پر جب انسان کہتا ہے میں ایسا ہوں۔ میں ایسا کر سکتا ہوں، یا ہم نے یہ کام کیا ہے ۔ اس ’’میں‘‘ یا ’’ہم‘‘ میں ایک مکمل انسان کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اور یہ انسان کی مرکب شکل ہے۔ انسان مرکب ہے روح، قلب، نفس اور جسم کا۔ ہر فرد اپنی شخصیت سے پہچانا جاتا ہے۔ شخصیت فرد کی مکمل اکائی کا نام ہے شخصیت میں اس کے ظاہری اور باطنی دونوں پہلو شامل ہیں۔ ارث یا وراثت کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور ماحول کی افادیت اپنی جگہ ہے۔بچہ پیدائش کے ساتھ بہت سے اوصاف لے کر دنیا میں آتا ہے۔ ان میں سے کچھ اوصاف ایسے ہوتے ہیں جو تمام انسانوں میں مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ اوصاف فرد میں انفرادی طور پر موجود ہوتے ہیں۔پیدائشی خصوصیات کو ارث کہا جاتا ہے۔ خارجی دنیا میں ماحول بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ خارجی اورداخلی پہلوئوں میں یک رنگی، یکجہتی یا یوں کہہ لیجئے کہ ’’گیشٹالٹ‘‘ بنانے کے لئے ایک قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قوت میں روحانیت کا عمل داخل ہوتا ہے۔ یہی انسان کی تخلیقی قوت ہے۔جسم کی درستگی کے لئے عضویاتی قلب کی درستگی کو ضروری قرار دیا گیا ۔ اس گوشت کے ٹکڑے کے علاوہ اس کے ساتھ ایک اور قوت بھی ہے۔ اس کوبھی قلب کا نام دیا گیا ہے۔ آسانی کے لئے اسے روحانی قلب کہہ لیجئے ۔ اس کی نشوونما شخصیت کی نشوونما میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ غزالی کے نزدیک روح، نفس اور عقل قلب ہی کے زیر اثر ہیں۔ یہ سب قوتیں جن کا منبع دراصل قلب ہے، ایک ساتھ پروان چڑھتی ہے تو شخصیت کی صحیح تعمیر ہوتی ہے۔انسان دس اجزا سے مرکب ہے پانچ مادی اور پانچ غیر مادی ہیں۔ مادی اجزا میں عناصر اربعہ اور نفس شامل ہیں غیر مادی اجزا میں قلب، روح، سر، خفی، اخفی شامل ہیں۔ بعض صوفیا نے اپنی اصطلاح میں نفس کو بھی شامل کیا ہے اور اس مجموعہ کو لطائف ستہ کہا ہے ۔ اشرف علی تھانوی کے نزدیک نفس کو لطائف میں شامل کرنے کی وجہ نفس کا مادی ہونا ہے۔ نفس کو مادی اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہوت کی طرف دعوت دیتا ہے۔نفس کا لفظ نفاست یا تنفس سے نکلا ہے۔ کسی شخصی کی ذات کو اس کا نفس کہتے ہیں۔ علامہ ابو القاسم کے نزدیک روح اور نفس ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ ان میں فرق صرف اوصاف کا ہے۔نفس انسان کے اندر ایک قوت ہے جس سے وہ کسی شے کی خواہش کرتا ہے۔ یہ خواہش خیر کی بھی ہو سکتی ہے اور شر کی بھی۔ بچہ سلیم فطرت پہ پیدا ہوتا ہے اس لئے معصوم ہوتا ہے ماحول اس میں اچھائی برائی، نیک وبد کے اثرات اجاگر کرتا ہے اور اس طرح نفس کی نشو ونما ہوتی ہے۔نفس کے تین درجات :۔ نفس کے تین درجات ہیں۔i ۔ درجہ اولیٰ میں نفس کا نام مطمئنہ ہے۔ یہ درجہ اطمینان نفس کا ہے۔ اس میں سکون کا مل پیدا ہو جاتا ہے۔ii ۔ درجہ ثانی میں لوامہ ہے۔ یہ غیر کامل وغیرتام ہے۔ اس میں کشمکش ہے۔iii۔ درجہ ثالثہ میں امارہ بالسو ہے۔ یہ عدم سکون ہے۔نفس مطمئنہ امور خیر میں مقاومت نہیں کرتا بلکہ اس میں بھی وسوسے اور خطرات پیش آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہر عضو کو کمال بخشا ہے اگر وہ کمال حاصل نہ ہو تو اسے بے چینی اور اضطراب رہتا ہے۔ مثلاً آنکھ کا کام دیکھنا کان کا کام سننا زبان کا کام چکھنا ہے۔ جب ان اعضا کے وہ قوی سلب ہو جائیں جن سے کمالات وابستہ ہیں تو ان کے جاتے رہنے سے کمی اور بے چینی پیدا ہو جاتی ہے۔ قلب کا کمال قلب کا سرور اور معرفت حق تعالیٰ کی لذت و شگفتگی ہے۔ قلب اس دولت سے محروم ہو جاتا ہے تو سخت عذاب اور بے چینی میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ جیسے آنکھ اپنا نور کھوکر اور زبان گویائی کھوکر۔ جب انسان شک سے یقین، جہالت سے نور، غفلت سے ذکر، گناہ سے رجوع ، ریا سے خلوص، جھوٹ سے سچ، سستی سے چستی، غرور سے عاجزی اور بے عملی سے عمل کی طرف سفر کا آغاز کرتا ہے تو اس کی روح کو سکون ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔ ان تمام باتوں کی بنیاد نیکی اور خود آگہی پر ہے۔٭…٭…٭٭…٭…٭