اردو کے لیے مولوی عبدالحق کی قربانیاں
اسپیشل فیچر
مولوی عبدالحق نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لئے نہ صرف عوامی تحریک چلائی اور گلی کوچوں میں نکل آئے، بلکہ قومی زبان کا درجہ دلانے کے لئے ایسے ٹھوس کام بھی کئے جن سے اردو زیادہ سے زیادہ اہم زبان بن سکے۔اردو میں اصطلاحات کی ایسی کوئی لغت نہ تھی جو دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اس ضمن میں ضرورت مند ادارے اور دفاتر جب کسی اصطلاحی مشکل کا شکار ہوتے تھے، تو وہ مولوی عبدالحق صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ اس لئے مولوی عبدالحق صاحب نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو ان دفتری اصطلاحات کے خواہش مند اداروں، دفاتر اور شعبوں کی رہنمائی کر سکے، چنانچہ حکومت نے مولوی عبدالحق صاحب ہی کے زیر صدارت ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مکتوب بنام مولانا عبدالماجد دریا بادی محررہ 25جون 1950ء میں تحریر کیا:’’ میں نے حکومت سے کچھ رقم طلب کی ہے، تاکہ تمام دفتری اور عدالتی الفاظ و اصطلاحات کی ڈکشنری تیار کروں۔ علمی اصطلاحات جو اس وقت تک بن چکی ہیں، وہ سب جمع کر رہا ہوں، انجمن اور کالج کا کام اس سے الگ ہے۔‘‘ ’’ قاموس ادب‘‘ مولوی صاحب کے منصوبوں میں عرصے سے شامل تھی لیکن ہجومِ کار مولوی صاحب کو اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کا موقع فراہم نہیں کر رہا تھا۔ بمشکل تمام 1955ء میں وہ اس کا آغاز کر سکے۔1953ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن ترقی اردو کی گولڈن جوبلی منعقد کی، جس کے اجلاس8 مئی تا 12مئی 1953ء جاری رہے۔ اس میں برصغیر کے دونوں ممالک کے نمائندے شامل تھے اس موقع پر سب سے یادگار کام’’ پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ کی ترتیب و تدوین تھا جسے سید ہاشمی فرید آبادی نے انجام دیا تھا لیکن1947ء کی المناک تباہی کا حال و تذکرہ مولوی عبدالحق صاحب نے خود تحریر کیا تھا۔پاکستان ہجرت کرنے سے قبل مولوی صاحب کا وظیفہ خدمت جو انہیں سرکار عثمانیہ سے ملتا تھا وہ نہ صرف ان کی، بلکہ آئے گئے کی کفالت کے کام آتا تھا۔ لیکن پاکستان آنے کے ایک سال بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ذاتی اثاثہ یہاں تک کہ تن کے کپڑے تک 1947ء کی لوٹ مار کی نذر ہو گئے، جس کے نتیجے میں ان پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اس زمانے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے انہیں رائے دی کہ وہ انجمن سے کچھ مدد لیں لیکن مولوی عبدالحق صاحب جنہوں نے ساری عمر، اپنا تن من اور دھن نچھاور کیا تھا ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے 30جنوری1951ء کے اپنے مکتوب میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کی تجویز رد کرتے ہوئے کہا:’’ تم کہتے ہو میں اب کچھ انجمن سے لے لوں یہ نا ممکن ہے مجھے فاقے کرنے منظور ہیں مگر انجمن سے کچھ لینا ہر گز منظور نہیں‘‘ اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کی مالی حیثیت بھی بہت کمزور ہو چکی تھی انجمن کی امداد بند تھی ادھر اردو کالج کھلنے سے اخراجات کا مزید بوجھ بڑھ گیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی فیاضی کی حد تو یہ تھی کہ انہیں جو پنشن بھی ملتی تھی وہ بھی انجمن کو عطیہ کر دیتے تھے۔ 1951ء کے آخر میں انہیں کچھ رکے ہوئے پیسے ملے تو وہ بھی انجمن کو دے دیے۔ مولوی عبدالحق صاحب خود اس موضوع پر تحریر کرتے ہیں:’’ حکومت نے جو پنشن میرے لئے اپنی فیاضی اور قدر دانی سے عطا فرمائی تھی وہ میں نے انجمن کو منتقل کر دی ہے۔ انجمن رکھنا سب سے مقدم ہے۔ میں یا مجھ جیسے دوسرے افراد رہیں یا نہ رہیں، انجمن کا رہنا لازم ہے۔ میں نے حقہ، چائے وغیرہ ترک کر دئیے ہیں اور اپنی ضرورتیں بہت کم کر دی ہیں۔ کھانے کے لئے میں نے تریسٹھ روپے ماہانہ رکھے ہوئے ہیں چند روپے دھوبی حجام کے سمجھ لیجئے کپڑوں کی ضرورت ہے نہ جوتوں کی البتہ دو تین طالب علموں کو مدد دیتا ہوں وہ کچھ مدت دیتا رہوں گا۔‘‘ انجمن کی مالی حالت اس حد تک گر گئی کہ انجمن کے ملازمین کی تنخواہیں اور دفتر کے اخراجات بھی چلنا مشکل ہو گئے اور پیسے آنے کی کوئی سبیل نہ تھی، یہاں تک کہ انجمن کے تین رسالے (سائنس، معاشیات اور تاریخ سیاست) بھی تعطل کا شکار ہو کر بند ہو گئے اور انجمن کم و بیش چالیس ہزار روپے کی مقروض ہو گئی مجبوراً 20 فروری 1951ء کو مولوی عبدالحق صاحب نے ملازمین کو سبکدوش کرنے کے نوٹس جاری کر دئیے جیسے ہی یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی، تہلکہ مچ گیا اور حکومت نے فوری طور پر پندرہ ہزار روپے کی قلیل رقم کی امداد کا اعلان کیا۔ ادھر یہ انجمن کا بحرانی دور تھا، ادھر مولوی عبدالحق صاحب اور انجمن ترقی اردو کی مجلس ناظمین کے درمیان پہلے غلط فہمیاں اور پھر اختلافات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو انتشار کا شکار ہو گئی۔’’ اب وہ دور ابتلا آیا کہ انجمن کے کارکن جن سے مولوی عبدالحق کو توقعات تھیں، سازشیں کرنے لگے اور تخریبی کارروائیاں ہونے لگیں مولوی صاحب کا کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی غرض ایسی اذیت پہنچائی کہ شرافت کو شرم آنے لگی۔‘‘ مولوی عبدالحق صاحب کے لئے یہ دور بڑی اذیت کا دور تھا مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی انجمن کے لئے داؤ پر لگا رکھی تھی اور اب وہی انجمن جسے مولوی عبدالحق صاحب نے پالا، پوسا، جوان کیا، ایک ایسے موڑ پر لے آئی تھی جہاں مولوی عبدالحق صاحب انجمن کو خیر باد کہنے کے لئے تیار ہو گئے۔۔۔