تخلیق اور تعلیم کو ہم آہنگ کیجیے
دنیا بہت تیزی سے تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں ہمارا نظامِ تعلیم اور اِس کے نتیجے میں حاصل کردہ ڈگری اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم کا نظام بدحالی کا شکار ہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارانظامِ تعلیم تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ دنیا میں تعلیم کے معیار اور طریقہ کار پر اس وقت بحث ہو رہی ہے۔اِس بات کی اہمیت کو سمجھا جا رہا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ نظامِ تعلیم میں بھی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔کِن روبنسن، جو کہ پوری دنیا میں نامور ماہرِ تعلیم کے طور پر جانے جاتے ہیں،نے بھی تعلیم میں تخلیقی صلاحیتوں پر زور دیا ہے۔کِن روبنسن بتاتے ہیںکہ جولین لِن نامی ایک بچی کو اپنی تعلیم میں بہت مشکل کا سامنا تھا، اُس سے اپنا ہوم ورک نہیں ہو پاتا تھااور اس کی وجہ سے جماعت میں خلل پڑتا تھا۔ اس کے والدین کو اُس کے لئے کسی صلاح کار سے رابطہ کرنے کا کہا گیا۔لِن کی والدہ اور صلاح کار نے اُس کو پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھا مگر یہ مشق سود مند ثابت نہ ہوئی اور وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ کافی تحقیق کے بعد صلاح کار کو ایک خیال آیا۔ وہ ریڈیو چلاکر لِن کی والدہ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ جیسے ہی وہ کمرے سے نکلی، لِن نے رقص کرنا شروع کر دیا۔ تب صلاح کارنے والدین کو مشورہ دیا کہ اِس بچی کو ڈانس سکول میں داخل کروا دیں۔یہی بچی جس کو ڈانس سکول میں داخل کروایا گیاوہ برطانیہ کی مشہور ڈائریکٹر، ایکٹریس، کوریوگرافر اور ڈانسر جولین باربرا لِن بنی۔ضروری نہیں ہے کہ کسی بچے یا بچی میں صرف رقص کرنے کی صلاحیت ہی ہو۔ دیگر بہت سی پوشیدہ صلاحیتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اصل میں کِن روبنسن نے اِس بات سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں اُن میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کو بھی مدِنظر رکھا جائے تو ہم صحیح معنوں میں تعلیم کے مقصد سے مستفید ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر ہم بچوں کو اُن کی خداداد صلاحیتوں کے عین مطابق لے کر چلیں تو نہ صرف یہ بچے اپنے لئے کامیابیاں سمیٹیںگے بلکہ ملک و قوم کے لئے بھی نیک نامی کا سبب بنیں گے۔ہمارے معاشرے میں تخلیقی صلاحیتوں کو عام طور پر غلط طریقے سے سمجھا جا تا ہے۔ اِس کو صرف فنکاروں ہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت اِس سے مختلف ہے۔تخلیقی صلاحیت کی تعریف مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں کی ہے۔ بقول روبرٹ فرینکلن ’’کسی نئے خیال کو پہچاننے ، پیدا کرنے، متبادل امکانات اور مسائل کا حل تلاش کرے جو دوسروں کے لئے سودمند ہو اُسے تخلیقی صلاحیت کہتے ہیں۔‘‘ امریکی ماہرِ نفسیات کارل روجرز کے مطابق تخلیقی صلاحیت کا مطلب تصورات کا آپس میں نئے انداز سے تعلق قائم کرنا اور دوسروں سے منفرد انداز میں سوچنا ہے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فنکارانہ صلاحیتوں والے لوگ جیسا کہ موسیقار، مصور، شاعر، ناول اورافسانہ نگار ہی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیںاور یہ خیال کافی حد تک درست بھی ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص مختلف تخلیقی صلاحیتوں کا مالک ہو سکتا ہے۔جیسا کہ کوئی انجینئرکسی نئے خیال پر کام کرکے نئی چیز بنا سکتا ہے۔کوئی معمار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرکے تعمیر میں جدت لا سکتا ہے۔کوئی سائنس دان اور ماہرِ طبیعات اپنی تخلیقی صلاحیت سے انسانیت کی بھلائی کے لئے نئی چیز ایجاد کرسکتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی اور تعلیم میں تخلیق کے عمل کو بہت بری طرح نظر انداز کیا۔ کِن روبنسن نے ایک دفعہ اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا نظامِ تعلیم ’’خطرناک حالت‘‘ میں ہے۔یہ نظامِ تعلیم 21ویں صدی کی صنعتی ضرورتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنایاگیا تھا۔ اِس صنعتی تعلیم نے صرف وہی پود پیدا کی جو کہ صنعت کے لئے سودمند ہو سکتی تھی۔ تعلیم کو شماریات کا گورکھ دھندہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ اِسی بات کا اظہار معروف ناول نگار چارلس ڈکن نے کئی دفعہ اپنے ناولوں میں کیا ہے۔ان کے ایک ناول ہارڈ ٹائمز میں ایک کردارٹیچر کا ہے ۔ اس ٹیچر کو بتایا جاتا ہے کہ صرف اور صرف حقائق ہی بتانے ہیںاور کوئی نئی سوچ اور بات نہیں کرنی جو حقائق سے ہٹ کر ہواور جب بھی پوچھا جائے صرف انہی حقائق کو دہرائے۔یہی مثال ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم پر لاگو ہے کہ جو کچھ کتابوں میں لکھ دیا گیا ہے وہی حرفِ آخر ہے اور جو بچے اُسے حرف بہ حرف امتحانی کاپی میں اتار لیں وہی بچے کامیاب ٹھہرائے جاتے ہیں۔کئی دھائیوں سے ہم اسی طرح اپنے بچوں کو ’’زیورِ تعلیم‘‘ سے آراستہ کر رہے ہیں۔کِن روبنسن کے مطابق اِس وقت پوری دنیا میں تعلیم اصلاح طلب ہے۔ اِس کو مکمل طور پر نئے سِرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو کہ موجودہ حالات ، تقاضوں اور رجحانات پر پورا اترتی ہو۔ کِن روبنسن کہتے ہیں تعلیم میں انقلاب کی ضرورت ہے۔بچوں میں نئی چیزوں کی کھوج اور ممکنات پر بات کرنا ہو گی، سوالات پوچھنے اور ایک سوال کے مختلف انداز میں جوابات کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔انٹرنیٹ کے اس دور میںمعلومات ہر ایک کی پہنچ میں ہیں۔ مناسب مواقع اور رہنمائی سے بچوں میں موجود تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور ماہر روبرٹ ایل فیلڈنگ کے بقول تخلیقی صلاحیتوں تک پہنچنے کے لئے ہم جن اقدامات کو اٹھا سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔٭ سقراطی طرز کے مکالمے میں بچوں کو شامل کرنا٭لکھنے کا ایساعمل جس سے سوال پیدا ہو۔ مختلف موضوعات پر لکھنے سے بچوں کو اپنی داخلی باتوں کو جاننے کا موقع ملتا ہے اور یہ عمل سوالات کو جنم دیتا ہے۔٭ یہ جاننا کہ آپ کیا جانتے ہیں۔یعنی اپنے اندر موجود علم اور صلاحیتوں کا علم ہونا۔٭ باتوں یا تصورات کو آپس میں جوڑکر ایک نیاخیال تخلیق کرنا۔ایک ماہرایلن ایچ جارڈن کے مطابق بچوںمیں تخلیقی عمل کو ابھارنے اور مشکلات کو حل کرنے کیلئے درج ذیل پانچ طریقوں کو آزمایا جا سکتا ہے۔٭ اُس چیز کی حوصلہ افزائی کی جائے جو بچوں میں دلچسپی کا باعث ہوں۔ یہ عمل سوچ کے نئے در کھولے گا۔٭ مختلف انداز میں سوچنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کسی کام کو کرتے ہوئے روایتی طریقے سے ہٹ کر انداز اور سوچ کو عمل میں لانا،مثلاً حساب کے سوال کیلئے عام طریقہ کار اپنانے کی بجائے مختلف انداز میں سوال کرنا اور جوابات تک پہنچنے کے لیے نت نئے طریقے اپنانا۔٭ گروپ کی صورت میں مسئلے کے حل کی حوصلہ افزائی کرنا۔ بعض کام ایسے ہیں جو کہ اکیلے کرنا ممکن نہیں ہوتااُس کیلئے مختلف ذہن اور صلاحیتیں مل کر آسانی سے یہ کام سر انجام دے سکتی ہیں۔٭ دریافت کے عمل کی حوصلہ افزائی کرنا۔بجائے اِس کے کہ بچوں کے صرف پڑھنے پر زور دیا جائے۔٭ جو چیز موجود ہے اُس سے ہٹ کر کوئی حل سوچنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرنا۔ یعنی متبادل حل تلاش کرنے کا عمل۔اپنے نظامِ تعلیم کو اِس مقام تک لے جانے کیلئے بہت محنت درکار ہے۔ دنیا میں اپنے کردار اور اہمیت کو منوانے کیلئے ہمیں اپنی تاریخ دہرانی ہو گی اور وہ وقت واپس لانا ہو گا جب تمام دنیا علم و عمل کیلئے بغداداو ر غرناطہ کی طرف دیکھتی تھی۔ بڑے بڑے سائنسدان ، محقق ، فلاسفرمسلم دنیا سے تھے اور یہ سب اِس وجہ سے تھا کہ اُس وقت تعلیم قرآن کی روشنی میں تحقیق اور تخلیق کے عمل کو سامنے رکھ کر حاصل کی جاتی تھی۔بقول علامہ اقبالؒ یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گواراپرانے افکار کی نمائش٭…٭…٭