خاندانی زندگی اور معاشرہ
اسپیشل فیچر
خاندانی زندگی کا چکر شاید ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ دنیا میں ہزاروں قسم کی تبدیلیاں آتی ہیں۔ پہلے زمانے میں خاندان بڑے ہوتے تھے۔ سب بھائی اپنے اپنے خاندان کے ساتھ اکٹھے رہتے تھے۔ بعض دفعہ ایک گھر میں چار نسلیں اکٹھی ہو جاتی تھیں مگر اب زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ خاندان سمٹ کر میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل ہو گیا ہے۔ کنبے کی ابتدا میاں بیوی سے ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب خاندان میں بچوں کا اضافہ ہوتا ہے تو خاندان پھیل کر بڑا ہو جاتا ہے۔ جب بچے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد خود ملازمت اختیار کر لیتے ہیں تو بیٹیاں شادی کے بعد شوہروں کے گھر چلی جاتی ہیں۔ بیٹے بہوؤں کے ساتھ علیحدگی میں پر سکون زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔ یوں وہ خاندان جس کی ابتدا صرف شوہر بیوی سے ہوئی تھی پھر سکڑ کر دو آدمیوں پر مشتمل ہو جاتا ہے۔ اور جب بڑی عمر میں دونوں میں سے کسی ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے تو یہ خاندان کی انتہا کہلاتی ہے اور پھر یونہی نیا جوڑا پھر سے خاندان کی بنیاد رکھتا ہے۔معاشرہ لوگوں کے آپس میں رہن سہن کے انداز کا نام ہے۔ ہم بہت سے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے آدمی دیہاتوں میں رہتے ہیں اور بہت سے شہروں میں مقیم ہیں۔ کچھ کاروبار کرتے ہیں کچھ مزدوری اور ملازمت کچھ صنعتی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے زرعی کاموں میں۔ معاشرے کی اکثریت میں تھوڑے بہت امیر و کبیرہوتے ہیں۔ کافی تعداد میںافراد درمیانے اور ادنیٰ درجے کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی گزر اوقات مشکل سے ہوتی ہے۔ سب درجے کے افراد اکٹھے ہی رہتے ہیں ریلوں سڑکوں بسوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے سفر کرنے والے پیدل چلنے والے سب ایک ہی معاشرہ بناتے ہیں۔ استاد اور شاگرد دکاندار اورگاہک ڈاکٹر اور مریض سب مل کر معاشرے کو وجود میں لاتے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسم و رواج بچوں کی پیدائش کی رسومات اورموت کی صورت میں غم کی رسومات ایک ہی معاشرے کے تانے بانے ہیں۔افراد کے باہمی تعلقات کے تانے بانے کو معاشرہ کہتے ہیں۔ ایک ماہر کے مطابق یہ معاشرتی ساخت کا وہ نظام ہے جس میں اور جس کی بنیاد پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو معاشرتی حیوان کہا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرے سے الگ تھلگ کوئی بھی زندہ انسان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ خواہ وہ جنگل میں رہنے والا راھب ہی کیوں نہ ہو۔انسانی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا ذہن ہر قسم کے احساسات اور تاثرات سے پاک ہوتا ہے جو بعد میں دوسرے افراد کے ساتھ رہنے اور کام کرنے سے متاثر ہوتاہے۔ پیدائش کے فوراً بعد اسے ماں کی حیثیت کا احساس ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے کنبے کے دوسرے افراد سے متعارف ہوتا ہے۔ پھر اس کے ہمسائے واقف بنتے ہیں اورآخر میں برادریوں وغیرہ کی باری آتی ہے۔ ان تمام لوگوں سے وہ نرمی، سختی، شفقت اور لاتعلقی کا رویہ سیکھتا ہے۔ یہ اثر پذیری دورخی ہوتی ہے یعنی جب بچہ دوسروں سے سیکھ رہا ہے تو بیک وقت دوسرے لوگ بھی اس کے ذہنی رد عمل کا تاثر قبول کرتے ہیں۔ یہ عمل معاشرتی تربیت کہلاتا ہے اور تربیت سے فرد کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔گویا کمزور یا چڑچڑی شخصیت کا انحصار مکمل طور پر اس بات پر ہے کہ متعلقہ فرد کی تربیت کسی قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ تمام خاندانوں کے چند مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ مقاصد یکساں بھی ہوتے ہیں اور مختلف بھی۔ اس کاانحصار خاندان کی قسم پر ہے مثلاً پاکستان میں خاندان کا مقصد رہائش مہیا کرنا اور بچوں کے لیے تعلیم ہو سکتا ہے پھر بھی بعض مقاصد ایسے ہیں جن کو کوئی نام دینا مشکل ہے جسے آرام خوبصورتی یا صفائی ستھرائی کے لیے مل جل کر کام کرنا سب خاندانوں کیپاس انسانی ذرائع ہوتے ہیں جیسے ذہانت، قابلیت ہنر تعلیم اور طاقت مادی ذرائع جیسے پیسہ اشیا جو خاندان کی ذاتی ملکیت ہیں اور کچھ وہ ذرائع جو اجتماعی زندگی سے حاصل ہوتے ہیں مثلاً تعلیم و تدریس اور طبی سہولتیں اور اسی طرح ہمیں زندگی کے لیے بھی تیار رہنا چاہے۔ شخصیت کی نشوونما بہت چھوٹی عمر میں ہو جاتی ہے مثلاً والدین کا اثر عادات کی تشکیل طرز عمل اور مزاج وغیرہ۔٭…٭…٭