علامہ اقبالؒ کی تاریخ ولادت کا مسئلہ
اسپیشل فیچر
علامہ اقبالؒ کی تاریخ ولادت عرصہ سے ایک متنازع معاملہ رہا ہے اور اس سلسلہ میں کئی سن بیان کیے جاتے رہے ہیں۔ اقبالؒ کی زندگی کے دوران جو مضامین یا کتابیں ان پر تحریر کی گئیں، ان میں اقبالؒ کا سن ولادت 1870، 1872، 1875، 1876 یا 1877 بتایا جاتا رہا۔ مصنفین میں سے چند تو اقبالؒ کے حلقہ احباب میں سے تھے لیکن بیشتر انہیں ذاتی طور پر نہ جانتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اقبالؒ اپنے حالات زندگی کی تشہیر میں دلچسپی نہ رکھتے تھے۔ اس لیے 1922 میں جب فوق نے ان سے بذریعہ خط حالات طلب کیے تو جواب دیا:’’باقی رہے میرے حالات تو ان میں کیا رکھا ہے۔۔۔‘‘قیام یورپ کے دوران 1907 میں جب اقبالؒ نے ڈاکٹریٹ کی سند کی تحصیل کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعیات کا ارتقا، (انگریزی) میونخ یونیورسٹی میں پیش کیا تو اس کے ساتھ اس یونیورسٹی کے دستور کے مطابق ایک خود نوشت، مختصر سوانحی خاکہ بھی منسلک کیا جس میں انہوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا:’’میں 3 ذیقعد 1294ھ (بمطابق 1876) کو سیالکوٹ پنجاب (انڈیا) میں پیدا ہوا۔۔۔‘‘اس تحریر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ہجری سن میں اپنی ولادت کی تاریخ، ماہ اور سال کے ساتھ قوسین میں اس کا عیسوی سن یعنی 1876 اندازے یا تخمینے کے مطابق دیا مگر اسے صحیح طور پر پوری تفصیل کے ساتھ عیسوی تاریخ، ماہ یا سال میں تبدیل کرنے کی تکلیف نہ کی۔ بعد میں 1931 میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کی خاطر انگلستان جانے کے لیے پاسپورٹ بنوایا تو اس میں بھی انہوں نے اپنا سن ولادت 1876 تحریر کیا۔ اقبالؒ کے حصول تعلیم کی خاطر یورپ جانے کا پاسپورٹ جو 1905 میں بنوایا گیا ہوگا، موجود نہیں۔ ممکن ہے اس میں سال ولادت 1876 درج ہو۔ خمخانہ جاوید جلد اول مصنف لالہ سری رام طباعت 1908 میں اقبالؒ کا سن ولادت 1870 درج ہے۔ اس کتاب کی تحریر یا اشاعت کے دوران اقبالؒ انگلستان میں تھے اور عین ممکن ہے کہ لالہ سری رام نے اقبال کے حالات زندگی ان کے بعض جاننے والوں سے حاصل کیے ہوں کیونکہ وہ مقدمہ کتاب میں شیخ عبدالقادر، پنڈت کیفی اور نواب سر ذوالفقار علی خان کا ذکر اس سلسلے میں کرتے ہیں، اور ان احباب نے اپنے اندازے کے مطابق سال ولادت 1870 بتایا ہو۔ انتخاب زریں مرتبہ سرسید راس مسعود طباعت 1921 میں تاریخ ولادت اگست 1870 بمطابق 1287ھ تحریر ہے۔ قاموس المشاہیر جلد اول مرتبہ نظامی بدایونی طباعت 1924 میں سال ولادت 1870، اور قند اردو مرتبہ جلال الدین احمد جعفری طباعت 1924 میں بھی سال پیدائش 1870 دیا گیا ہے۔ سرسید راس مسعود کے علاوہ باقی حضرات اقبالؒ کے حلقہ احباب سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ اس زمانے میں سرسید راس مسعود کے ساتھ بھی اقبالؒ کے تعلقات اتنے گہرے نہ ہوں جتنے بعد میں ہو گئے تھے۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان تمام حضرات نے سال ولادت 1908 میں مطبوعہ خمخانہ جاوید سے اخذ کیا ہو۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم اور عبدالقادر سروری نے اقبالؒ پر اپنے اپنے مضمونوں میں، جو آثار اقبال مرتبہ غلام دستگیر رشید ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد (دکن) میں شائع ہوئے، اقبالؒ کا سن ولادت 1872 درج کیا ہے۔ اقبالؒ کے احباب میں سب سے پہلے ان کے حالات زندگی پر مضمون فوق نے تحریر کیا جو ’’حالات اقبال‘‘ کے عنوان سے کشمیری میگزین لاہور میں 1909 میں شائع ہوا۔ اس میں اقبالؒ کا سال پیدائش 1875 درج ہے۔ اس کے بعد نواب سر ذوالفقار علی خان نے اقبالؒ پر اپنے انگریزی کتابچہ بعنوان مشرق سے ایک آواز، طباعت 1922 میں ان کا سن ولادت، 1876 کے لگ بھگ، تحریر کیا۔ مولوی احمد دین ایڈووکیٹ نے اقبالؒ پر اپنی کتاب (طباعت 1924 بار اول اور 1926 بار دوم) میں ان کا سال پیدائش 1875 لکھا۔ 1930 میں فوق نے اپنی کتاب مشاہیر کشمیر کی طبع ثانی میں بھی 1875 ہی کو اقبالؒ کا سن ولادت قرار دیا۔ لیکن 1932 میں نیرنگ خیال کے اقبال نمبر میں فوق نے اقبالؒ کے سوانح خیال پر اپنے مضمون میں پہلی بار ان کا سال پیدائش 1876 تحریر کیا اور اسی طرح تاریخ اقوام کشمیر جلد دوم میں بھی 1875 کی بجائے 1876 کو ان کا سن ولادت قرار دیا۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ فوق، نواب سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین کے تعلقات اقبالؒ سے بہت گہرے تھے۔ شیخ اعجاز احمد کے قیاس کے مطابق فوق نے سن ولادت کی تصحیح اقبالؒ کے ایما سے کی ہوگی۔ لیکن ڈاکٹر وحید قریشی کا اعتراض ہے کہ اس سلسلہ میں اگر 1922 سے لے کر 1930 تک اقبالؒ نے فوق کی کوئی مدد نہ کی تو بعد میں تعاون کیوں کر کیا ہوگا۔ ان کی رائے میں فوق نے یا تو نواب سر ذوالفقار علی خان کی تحریر پر بھروسا کیا یا ملک راج انند کے مضمون پر، جس کا ماخذ بھی نواب سر ذوالفقار علی خان ہی کی کتاب تھی۔ ان کے خیال میں یہ بھی ممکن ہے کہ نواب سر ذوالفقار علی خان اور مولوی احمد دین کے بیانات ہی اقبالؒ کی نظر میں معتبر شمار ہوئے ہوں۔ اقبالؒ کے فوق کے نام خط محررہ 1922 سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسرنفسی سے یا تکلفانہ انداز سے تحریر کیا گیا۔ اغلباً فوق نے انہیں خط میں اپنے حالات لکھنے کی فرمائش کی جسے اقبالؒ نے انکساری سے ٹال دیا۔ لیکن ساتھ ہی تحریر کیا:’’۔۔میرا طرز رہائش مشرقی ہے آپ شوق سے تشریف لا سکتے ہیں۔‘‘ممکن ہے بعد کی ملاقاتوں میں جب فوق نے انہیں بحیثیت دوست مجبور کیا تو سن ولادت کے سلسلہ میں اقبالؒ نے ان کی رہنمائی کردی ہو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اقبالؒ کے علاوہ نواب سر ذوالفقار علی خان کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا؟ ظاہر ہے انہیں اقبالؒ ہی نے بتانا تھا کہ میرا سن ولادت 1876 کے لگ بھگ ہے اور انہوں نے اسی طرح تحریر کر دیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ انہوں نے جس سن کو ’’لگ بھگ‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا، فوق یا ملک راج انند نے اسے حتمی بنا دیا۔بہرحال اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اقبالؒ نے ہجری سن میں اپنی تاریخ ولادت کوعمر بھر کبھی عیسوی سن میں مکمل طور پر منتقل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اقبالؒ اپنے بزرگوں کی طرح عیسوی سن پر ہجری سن کو ترجیح دیتے تھے۔ اس بات کا اعتراف ڈاکٹر وحید قریشی بھی کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبالؒ اگرچہ خطوط میں مکتوب الیہ کی سہولت کے خیال سے عیسوی تاریخیں دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے جو منظوم تاریخیں کہی ہیں ، آٹھ تاریخوں کے سوا باقی تمام ہجری میں ہیں۔ اس لیے ہجری سن میں انہیں جو حتمی تاریخ ولادت والدین نے بتائی، اسے جوں کا توں رکھا گیا۔ پس وہی تاریخ ان کی نگاہ میں معتبر تھی جو نو نومبر 1877 کے برابر ہوتی ہے۔ راقم کی رائے میں اقبالؒ کی اپنی بیان کردہ تاریخ ولادت کی مطابقت ان کے تاریخی ریکارڈ سے 1873کے مقابلے میں زیادہ سہولت سے ہوتی ہے۔ مزید برآں حالات و واقعات کی شہادت اور خاندان اقبال کے بزرگ اور معتبر افراد کے بیانات بھی بمقابلہ 1873 اسی سن ولادت کی تائید کرتے ہیں۔ ان شواہد کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبالؒ کی تاریخ ولادت 3 ذیقعد 1294ھ ہے جو 9 نومبر 1877 کے برابر ہوتی ہے۔ ٭…٭…٭