بادشاہی مسجد
اسپیشل فیچر
قلعہ لاہورکی غربی جانب واقع حضوری باغ کے سامنے سوا تین سو سالوں سے ایستادہ بادشاہی مسجد تاج محل کے معمار شاہجہان کے تیسرے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر کے اعلیٰ ذوق جمالیات کا نمونہ ہے یہ وہی شہزادہ اورنگ زیب عالمگیر ہے جس نے تاج محل کی تکمیل پر بہت باریک بینی اور گہری نگاہ سے عمارت کا جائزہ لینے کے بعد اپنے والد شاہجہان کو خط لکھا اور چند تعمیری نقائص کا ذکر کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ اورنگ زیب عالمگیر کا عہد جنگی فتوحات کا عہد جانا جاتا ہے مگر اس پر جلال دورمیں کئی مساجد اور مزارات کی تعمیر کے شواہد ملتے ہیں۔ ان میں کئی اعلیٰ تعمیراتی نمونے آج بھی موجود ہیں۔ انہی میں اہم ترین نمونہ بادشاہی مسجد ہے جو اپنی وسعت ، جمالیات، کشادگی اور اعلیٰ ترین تعمیراتی خواص کی بدولت عالم اسلام میں بے مثال ہے دنیا بھر سے زائرین جوق در جوق اس کے نظارے کے لیے آتے ہیں اور تادیر مبہوت ہو کر مغل عہد کے اس یادگار نمونے کو دم سادھے دیکھتے رہتے ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں کوئی تاریخی حوالہ نہیں ملتا البتہ دو معلومات ضرور ایسی ملتی ہیں جن سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ یہ مسجد اورنگزیب عالمگیر کے حکم کے تحت شاہی سرپرستی میں 1673-74ء میں تعمیر کی گئی۔ اولین حوالہ تو مسجد کی ڈیوڑھی کی پیشانی پر آویزاں وہ لوح ہے جس پر سن تعمیر 1674ء لکھا ہوا ہے مزید معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی تعمیر عالمگیر کے رضاعی بھائی مظفر حسین المعروف فدائی خان کوکہ کی نگرانی میں ہوئی۔ فدائی خان کوکہ اس وقت لاہور کا گورنر تھا۔ مظفر خان کو شاہجہان کے عہد اقتدار سے اکتیسویں سال میں اس کو فدائی خان کا لقب ملا تھا۔ لاہور کے حوالے سے تحریر کی جانے والی کتابوں میں ایک حویلی کا بھی ذکرملتا ہے جسے فدائی خان کوکہ نے دہلی اور اکبری دروازے کے درمیانی حصے میں، جہاں آج دربار شاہ محمد غوث واقع ہے، تعمیر کیا تھا۔ مسجد کی تعمیر کا دوسرا قابل اعتماد حوالہ اس شاہی فرمان کا ہے جس میں شاہی دارالخلافہ میں ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر کے احکامات اورنگزیب عالمگیر نے جاری کئے تھے اور لکھا تھا کہ تعمیری اخراجات صوبہ کی آمدن سے پورے کئے جائیں گے جس کا تخمینہ 30 لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔ خلاصتہ التواریخ کا مصنف منشی سبحان رائے بٹالوی لکھتا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے ایک ذمہ دار شخص کو مقرر کیا جائے اور حسب ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ اس تعمیری اخراجات کے لئے تسلسل کے ساتھ رقم فراہم کی جائے۔ اس مختصر شاہی فرمان سے اورنگ زیب عالمگیر کی فہم و فراست اور حکومتی تدبر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک باریک بینی سے اور گہرائی میں جاکر انتظامی معاملات سنبھالتا تھا۔ مسجد کا ڈیزائن تیار کرنے والے آرکیٹکٹ یا معمار کا تاریخ کی کتابوں میں کہیں ذکر یا حوالہ نہیں ملتا تاہم مسجد کے ڈیزائن اور اس کے عناصر کی باہمی یگانگت اور ہم آہنگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ لازم طور پر اس کا ڈیزائن کسی ایک شخص نے تیار کیا ہے۔ مسجد کے ڈیزائن کی منظوری خود اورنگ زیب عالمگیر نے ڈیزائن دیکھنے کے بعد دی تھی۔ دہلی اورآگرہ کی جامع مسجد کے نقشہ جات اور ڈیزائن کی بادشاہی مسجد کے ساتھ قریبی مشابہت کچھ سوچنے پر ضروری مجبورکرتی ہے۔ بادشاہی مسجد قلعہ لاہور کے مغربی جانب کھلنے والے عالمگیری دروازے کے بالکل سامنے واقع ہے۔ عالمگیر دروازے اور شاہی مسجد کی ڈیوڑھی کے درمیانی حصے میں حضوری باغ ہے جس کے مرکز میں سنگ مرمر کی ایک بارہ دری آج بھی موجود ہے۔ مسجد کی شمالی دیواروںکے ساتھ کبھی دریائے راوی بہتا تھامگر آج کل کھلا میدان ہے جس میں قرارداد پاکستان کے تاریخی واقعہ کی یاد میں تعمیر کیا جانے والا مینار پاکستان ایستادہ ہے۔ جنوبی جانب شہر قدیم ہے۔مشرقی جانب قلعہ لاہور میں ایوان عام و خاص، موتی مسجد اور شیش محل جیسی بیش قیمت تاریخی عمارات ہیں جبکہ مغربی جانب مزار نورشاہ ولی ہے جو شہر قدیم کی فصیلوں سے باہر واقع ہے۔ لاہور میں داخل ہونے والوں کا پہلا بصری تعارف مغلیہ عہد کی اس شاندار مسجد سے ہی ہوتا ہے جو اپنے تعمیراتی حسن اور جمالیاتی معیار میں فقید المثال ہے۔