اشفاق احمد کے حالاتِ زندگی اور شخصیت
اسپیشل فیچر
اردو ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے کا جانا پہچانا نام اشفاق احمد ان لوگوں میں سے ہیں جن کا نام حقیقتاً کسی تعارف کا محتاج نہیں ہوتا اور جس صنف کے حوالے سے وہ مشہور ہوں وہ صنف بھی ان کے حوالے سے جانی جائے۔ اُردو ڈرامے کو ایک الگ انداز میں پیش کرنے کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔اشفاق احمد اردو ڈرامے کے ہی نہیں افسانے کے بھی ادیب ہیں اور صوفیانہ محفلوں کے ’’باباجی‘‘ بھی ہیں۔ ان کا اصل نام اشفاق احمد خان تھا لیکن ادبی دنیا میں انہیں اشفاق احمد کے نام سے شہرت ملی۔ ان کا تعلق پٹھانوں کے مہمند قبیلہ سے تھا اور افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان میں آکے مقیم ہونے والے اسی قبیلہ میں ’’مستقیم خان‘‘ نامی شخص بھی یہاں آکر آباد ہوا۔ مستقیم خان کے بیٹے کا نام دوست محمد خان تھا جو پڑھنے لکھنے کے شوق میں شادی کے بعد اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ گئے اور نامی گرامی وکیل بن کر حیدر آباد میں زندگی گزارنے لگے۔ انہی دوست محمد خان کے ہاں ’’محمد خان‘‘ پیدا ہوئے جن کی ان کے والد نے پلٹ کر خبر تک نہ لی مگریہی محمد خان شفا خانہ حیوانات سے ڈاکٹری کرکے نامی گرامی ڈاکٹر بنے۔ڈاکٹر محمد خان کے ہاں ’’اشفاق احمد‘‘ پیدا ہوئے جو ذہانت، فراست اور علم دوستی ورثے میں لے کر آئے تھے۔ اشفاق احمد ضلع فیروزپور کے گائوں مکتسر (بھارت) میں پیدا ہوئے اور ان کی تاریخ پیدائش پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ فرح محمود اپنے ایم اے کے تحقیقی مقالے میں ان کی تاریخ پیدائش ۲۲؍اگست ۱۹۲۷ء لکھتی ہیں اور اس کا حوالہ وہ خود اشفاق احمد سے کئے گئے ایک انٹرویو سے لیتی ہیں۔’’اشفاق احمد کی تاریخ پیدائش فرمان فتح پوری نے ۲۲؍ اگست ۱۹۲۵ء لکھی ہے۔ جناب طاہر مسعود نے ۲۲؍ اگست ۱۹۲۷ء لکھی ہے لیکن خود اشفاق احمد اپنی تاریخ پیدائش ۲۲؍ اگست ۱۹۲۷ء بتاتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی میٹرک کی سند سے بھی ملتا ہے جس پر اسی تاریخ پیدائش کا اندراج ہے۔‘‘جبکہ ڈاکٹر انواراحمد ان کی تاریخ پیدائش ۲۲؍ اگست ۱۹۲۵ء ہی بتاتے ہیں۔ اور مقالہ نگار شازیہ عظمت اپنے تحقیقی مقالہ میں اشفاق احمد کے انٹرویو کا حوالہ دیتی ہیں:۔’’خود اشفاق احمد اپنے ایک انٹرویو میں جو انہوں نے ایک مؤقر روزنامہ کو دیا اپنی تاریخ پیدائش ۲۲؍ اگست ۱۹۲۵ء بتاتے ہیں۔‘‘اس اقتباس کی روشنی میں موخر الذکر انٹرویو میں تاریخ کو ہی ان کی صحیح تاریخ پیدائش مانا جائے کیونکہ ۲۲؍اگست ۱۹۲۵ء پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر انواراحمد اور خود اشفاق احمد اپنے انٹرویو میں اتفاق کرتے ہیں۔اشفاق احمد نے مکتسر سے ہی اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک فیروز والہ کے ایم بی ہائی سکول سے کیا۔ پھر آر۔ایس۔ڈی کالج میں داخل ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد لاہور آگئے۔ بی اے کیا پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا۔ پھر اٹلی چلے گئے اور روم یونیورسٹی سے اطالوی زبان میں اور فرانس کی گریول یونیورسٹی سے فرانسیسی زبان کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ نیویارک سے ریڈیائی نشریات کی تربیت حاصل کی۔ دیال سنگھ کالج لاہور میں ۲ سال تک لیکچرار رہے۔ روم یونیورسٹی میں بھی اردو کی تدریس دو برس تک کی۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک سال تک پنجابی کے لیکچرار کے فرائض اعزازی طور پر ادا کیے۔ دو برس تک ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ لاہور سے بحیثیت مدیر وابستہ رہے۔ پھر ماہنامہ ’’داستان گو‘‘ کا اجراء کیا۔ چار سال تک آر سی ڈی ریجنل کلچرل انسٹی ٹیوٹ (پاکستان برانچ) کے ڈائریکٹر رہے۔ اور حکومت پاکستان کی جانب سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ کا اعزاز بھی انہیں ۱۹۷۹ء میں ملا۔اشفاق احمد کی شادی اردو کی ممتاز ناول نگار، ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار بانو قدسیہ سے ہوئی۔ بانو قدسیہ اشفاق احمد کی کلاس فیلو تھیں اور غیر پٹھان خاندان سے ہیں۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن گھر والے اس بات کی اجازت دینے پر آمادہ نہ تھے اور خود اشفاق احمد میں بھی اپنے والد کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ نہ تھا لیکن وہ خود ذات پات کے قائل نہ تھے۔ ان حالات میں اشفاق احمد کی والدہ نے ان کا ساتھ دیا اور اشفاق احمد اور بانو قدسیہ نے خود ہی اپنے دوستوں کی موجودگی میں شادی کرلی۔شادی کے وقت اشفاق احمد بے روزگار تھے اس لیے گھر کی گاڑی کو چلانے کے لیے دونوں میاں بیوی نے قلم کا سہارا لیا اور یوں انہوں نے اپنے فن کی مدد سے واحد مالی فائدہ یہ حاصل کیا کہ سکرپٹ رائٹنگ کے ذریعے سے اپنے گھر کا نظام چلانے کی سعی کی۔ ممتاز مفتی ایک جگہ لکھتے ہیں:۔’’عرصہ دراز تک اشفاق احمد کے گھر میں حساب کتاب سکرپٹوں میں ہوتا رہا۔ کرایہ مکان چار سکرپٹ، باورچی خانے کا خرچ آٹھ سکرپٹ، علاج معالجہ ڈیڑھ سکرپٹ، لین دین دو سکرپٹ۔ آج بھی بانو سے پوچھو یہ صوفیہ کتنے میں خریدا تھا تو وہ کہے گی اچھی طرح یاد نہیں۔ شاید تین سکرپٹ لگے تھے۔‘‘اشفاق احمد اپنی ازدواجی زندگی سے ہمیشہ مطمئن رہے اور بانوقدسیہ بھی ایک ’’پتی بھگت‘‘ قسم کی بیوی ثابت ہوئیں۔ انہوں نے ایک آئیڈیل جوڑے کی طرح زندگی گزاری۔ بانو قدسیہ ہمیشہ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہیں اور اشفاق احمد کو بھی تمام عمر بانو قدسیہ کے خلاف کبھی تبصرہ کرتے ہوئے نہیں سُنا گیا۔اشفاق احمد کی زندگی میں منٹو اور میرزا ادیب کی طرح کوئی محرومی ان کی تخلیقات کا محرک نہیں بنتی بلکہ وہ بنیادی طور پر داستان گوئی کے فن سے مالا مال تھے۔ ان کو باتوں کے ذریعے مَن موہ لینے کا فن وراثت میں ملا تھا۔ اور اس فن کو انہوں نے افسانوں، ڈراموں اور اپنے آخری سالوں میں ایک صوفی واعظ کے انداز میں ڈھال کر پیش کیا۔ مستنصر حسین تارڑ کے بقول:۔’’میری ساس صاحبہ بتاتی ہیں کہ ان کی فیملی کو گفتگو کرنے کا بہت شوق تھا اور یہ سب بہت اچھی گفتگو کرتے تھے۔ یعنی یہ فیملی ٹریڈیشن تھی ،داستان گوئی یا گفتگو کرنا۔‘‘۷۹ برس کی عمر میں یہ بے نیاز صوفی بابا، رکھ رکھائو سے سرشار ایک دنیادار، ایک تلقین شاہ، اپنی منوانے والا گھر کا مالک، سن کر جذب کرلینے والا ایک عظیم کان، لٹیا لنڈھا دینے والا مہمان نواز، اشفاق احمد پتے کے کینسر جیسی موذی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد ۷؍ستمبر۲۰۰۴ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملا۔