محمد بن زکریا رازی: عظیم طبیب اور کیمیا گر
اسپیشل فیچر
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایران کے دارالحکومت تہران سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر ایران کا ایک قدیم شہر ’’رے‘‘ آباد تھا۔ نئے شہر تہران کے مقابلے میں اب رے کی اہمیت باقی نہیں رہی کیونکہ تہران اتنا پھیلا کہ رے اس میں ضم ہو گیا، لیکن پرانے زمانے میں یہ شہر بہت مشہور تھا۔ اس کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسی شہر میں اسلامی دور کا ایک نہایت قابل طبیب ابوبکر محمد بن زکریا رازی پیدا ہوا۔ رے کے نام کی نسبت سے ہی وہ رازی کہلایا اور مغرب میں ریزز کے نام سے مشہور ہوا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ رازی 840ء میں پیدا ہوا۔ شروع میں اس نے پڑھنے لکھنے کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور جوان ہونے تک سارا وقت کھیل اور تفریح میں گزارا۔ اسے گانے بجانے کا بہت شوق تھا اور وہ عود بہت اچھا بجاتا تھا۔ یہ اس زمانے کا مشہور ساز تھا۔ جب رازی بڑا ہوا اور اسے روپے پیسے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے کیمیا گری کی طرف توجہ دی۔ یہ اس زمانے میں جلدی سے امیر بن جانے کا بہت اچھا طریقہ سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ اس میں کامیابی کسی کو نہیں ہوتی تھی۔ یہ لوگ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور انہیں بعض جڑی بوٹیوں کیساتھ ملا کر مہینوں تک آنچ دیتے تھے۔ رازی نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ اسے جڑی بوٹیوں کی تلاش میں دو فروشوں کی دکان پر جانا پڑتا تھا۔ اس طرح اسے علم طب سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ ایک واقعے نے اس کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا اور اسے اتنی شہرت حاصل ہو ئی کہ آج ہم اس کے حالات آپ کو بتا رہے ہیں۔ تانبے کو سونا بنانے کی کوشش میں رازی کو آگ میں پھونکیں مارنی پڑتی تھیں۔ اس سے اس کی آنکھیں خراب ہوئیں۔ وہ علاج کے لیے ایک طبیب کے پاس گیا، جس نے اس سے بہت رقم وصول کی۔ رازی نے دل میں سوچا ’’اصل کیمیا گری تو یہ ہے، نہ وہ جس میں میں سر کھپاتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے طب کی تعلیم حاصل کرنے اور طبیب بننے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن طب کی تعلیم اس زمانے میں فلسفے کی تعلیم حاصل کیے بغیر نہیں ملتی تھی۔ اس لیے رازی نے پہلے رے میں تعلیم حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے بغداد روانہ ہو گیا۔ وہاں اسے علی بن ربن طبری جیسا استاد ملا۔ رازی نے اس سے بہت کچھ سیکھا اور اس کے مرنے کے بعد وہ رے کے سرکاری شفاخانے کا اعلیٰ افسر مقرر ہوا۔ یہاں رازی نے تجربے سے بہت کچھ سیکھا اور وہ ایک قابل طبیب بن گیا۔ رازی زندگی بھر رے اور بغداد کے سرکاری شفاخانوں کا افسر اعلیٰ رہا اور اس نے اپنی کتابوں میں اپنے اسی تجربے کا نچوڑ پیش کیا۔ اس کی سب سے بڑی کتاب ’’حاوی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کتاب کی 25 جلدیں ہیں جو یورپ کی لائبریریوں میں بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ دو بار لاطینی زبان میں ہوا۔ اس میںبیشتر بیماریوں اور ان کے علاج کے ذکر نہایت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ رازی کی دوسری عظیم طبی تصنیف ’’المنصوری‘‘ ہے۔ اس میں بھی مختلف امراض اور ان کے علاج کا ذکر ہے۔ اطبا میں یہ کتاب مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ اس کا بھی لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا ۔ان دو بڑی کتابوں کے علاوہ رازی نے علم طب پر چھوٹی چھوٹی بے شمار کتابیں لکھیں اور بتایا کہ غذا سے مختلف بیماریوں کا علاج کس طرح کیا جاتا ہے۔ گردے اور مثانے کی پتھری کا علاج کیسے کیا جائے۔ پھر اس نے ایک کتاب چیچک اور خسرہ پر بھی لکھی۔ یہ شاید دنیا کی پہلی کتاب ہے جس میں چیچک اور خسرہ کے اسباب، علامات، علاج اور احتیاطوں پر پوری تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ رازی کے بتائے ہوئے متعدد اصول آج بھی درست مانے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے ترجمے بھی یورپ میں کئی زبانوں میں کیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رازی کی شہرت ایک طبیب کی حیثیت سے زیادہ ہوئی لیکن جابر ابن حیان کے بعد وہ اسلامی دنیا کا دوسرا بڑا کیمیا دان تھا۔ تانبے اور پارے کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں اسے علم کیمیا سے گہرا لگاؤ پیدا ہو گیا۔ سونا تو نہ بن سکا لیکن اس نے علم کیمیا پر گئی کتابیں لکھیں اور بہت سے آلات کا مفصل ذکر کیا۔ اس کے لکھنے کا انداز سادہ اور عام فہم ہے۔ دوسرے کیمیا دانوں کے ہاں یہ بات نہیں ملتی۔ کیمیا کے علاوہ رازی نے فزکس یا علم طبیعیات پر بھی تجربات کیے۔ اس نے بہت سی چیزوں کا وزن مخصوص یعنی Specific Gravity معلوم کیا۔ اور اس مقصد کے لیے خاص قسم کی ترازو استعمال کی۔ یہ ترازو آج بھی اسی کام کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ٭…٭…٭