جان بیٹا خلافت پہ دے دو, مولانا محمد علی جوہر…ایک عظیم شخصیت تحریک خلافت میں ان کا کردار تاریخ میں زندہ رہے گا
اسپیشل فیچر
اگرچہ مولانا محمد علی جوہر نے تحریک پاکستان میں حصہ نہیں لیا کیونکہ قیام پاکستان سے کئی برس پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انہوں نے مسلمانان برصغیر کے لئے بہت کام کیا۔ وہ ہر صورت برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح چاہتے تھے۔ وہ ایک شاعر‘ صحافی عالم اور سیاست دان تھے اور ان شعبوں میں انہوں نے اپنے آپ کو منوایا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو یقینا تحریک پاکستان میں حصہ لیتے جبکہ وہ اپنی زندگی میں انگریزی استعمار کے خلاف لڑتے رہے۔محمد علی جوہر 1878ء کو رام پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ جب وہ صرف پانچ برس کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بھائیوں کا نام شوکت علی اور ذوالفقار تھا۔ یہ دونوں بھائی تحریک خلافت کے رہنما تھے۔ ان کی والدہ جنہیں بی اماں کہا جاتا تھا نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ سامراج سے آزادی کیلئے جدوجہد کریں۔ اس کے باوجود کہ مولانا محمد علی جوہر کے والد انتقال کر چکے تھے، انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر 1898ء میں لنکن کالج یونیورسٹی میں جدید تاریخ پڑھتے رہے۔ جب وہ واپس ہندوستان آئے تو انہوں نے ریاست رام پور کے ایجوکیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں۔ بعد میں انہوں نے برودہ سول سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ ایک ادیب اور مقرر کی حیثیت سے ابھرے اور پھر ایک دیدہ ور سیاسی رہنما کی حیثیت سے سامنے آئے۔ انہوں نے برطانوی اور ہندوستانی اخبارات میں لکھنا شروع کیا جن میں ’’دی ٹائمز لندن‘ دی مانچسٹر گارڈین اور آبزرور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے کلکتہ میں انگریزی ہفت روزہ ’’کامریڈ‘‘ نکالا۔ یہ 1911ء کی بات ہے۔ کامریڈ نے جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ 1913ء میں وہ دہلی آئے اور ایک اردو روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ کا آغاز کیا۔ ان کی اہلیہ بھی ان کا بھرپور ساتھ دیتی رہیں۔مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ یونیورسٹی توسیع کیلئے بہت محنت کی جو اس وقت محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1920ء میں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی جو دہلی میں منعقد ہوا۔ 1918ء میں وہ لیگ کے صدر بنے۔ وہ 1928ء تک مسلم لیگ میں سرگرم رہے۔محمد علی جوہر نے انڈین نیشنل کانگرس‘ آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک خلافت کے معاملات کی نگرانی کی اور اس لحاظ سے انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہے۔ 1919ء میں انہوں نے مسلمانوں کے اس وفد کی نمائندگی کی جس کا مقصد برطانوی حکومت کوا س بات پر قائل کرنا تھا کہ وہ ترک قوم پرست مصطفی کمال پر زور ڈالے کہ وہ ترکی کے سلطان جو اسلام کے خلیفہ تھے کو خلافت سے محروم نہ کرے۔ برطانوی حکومت نے جب ان کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے خلافت کمیٹی بنائی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کریں اور اس کا بائیکاٹ کریں۔1921ء میں مولانا محمد علی جوہر نے ایک وسیع اتحاد بنایا جس میں مسلم قوم پرست مولانا شوکت علی‘ مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان‘ مختار احمد انصاری اور بھارتی قوم پرست رہنما مہاتما گاندھی شامل تھے جنہوں نے کانگرس کی حمایت حاصل کی اور اس کے علاوہ ہزاروں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گئے۔ یہ اتحاد برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ مولانا جوہر نے دل وجان سے تحریک مزاحمت کی حمایت کی جو گاندھی کے کہنے پر شروع کی گئی تھی۔ مولانا جوہر کو برطانوی حکومت نے گرفتار کر لیا اور انہیں دو سال کیلئے جیل بھیج دیا۔ انہیں خلافت کانفرنس میں ایک ’’باغیانہ‘‘ تقریر کرنے کی پاداش میں یہ سزا دی گئی۔مولانا محمد علی جوہر تحریک خلافت کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو گئے اور پھر مہاتما گاندھی کی تحریک عدم تعاون کی معطلی پر بھی انہیں بہت قلق ہوا۔ تحریک خلافت کے خاتمے کا اعلان گاندھی نے کیا۔ دراصل اس کی خاتمے کی وجہ چوری چورا میں ہونے والے واقعہ تھا جو 4فروری 1922 کو پیش آیا۔ اس دن احتجاج کرنے والوں کے ایک بڑے گروپ کا پولیس کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ یہ گروپ گاندھی کی تحریک عدم تعاون میں حصہ لے رہا تھا۔ پولیس نے فائر کھول دیا اور اس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ ردعمل کے طور پر مظاہرین نے پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی اور 23 پولیس والوںکو ہلاک کر دیا۔ کانگرس نے اس واقعے کے بعد تحریک عدم تعاون کی معطلی کا اعلان کر دیا۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنا اخبار ’’ہمدرد‘‘ دوبارہ شروع کر دیا اور کانگرس چھوڑ دی۔ انہوں نے نہرو رپورٹ کی مخالفت کی۔ اس رپورٹ میں آئینی اصلاحات تجویزکی گئی تھیں اور ایک آزاد قوم کی نو آبادیاتی حیثیت کو تجویز کیا گیا جو برطانوی سلطنت کے زیر سایہ رہے۔اس رپورٹ کوکانگرس کے ہندو اور مسلمان ارکان کی کمیٹی نے تحریر کیا تھا جس کی سربراہی موتی لال نہرو نے کی تھی۔ یہ سائمن کمیشن کے خلاف ایک بڑا احتجاج تھا جو ہندوستان میں اصلاحات تجویز کرنے آیا تھا۔ لیکن اس کمیشن میں کوئی مقامی ہندوستانی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایسی کوشش کی گئی تھی جو ہندوستانیوں کی آواز اور خواہشات کو سن سکے۔ مولانا جوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔اس لیے نہرورپورٹ پر آل پارٹیز کانفرنس کی نمائندگی شوکت علی، بیگم محمد علی جوہر اور مرکزی خلافت کمیٹی کے 30 دوسرے ارکان نے کی۔ مولانا محمد علی جوہر نے نہرو رپورٹ کے اس حصے کی مخالفت کی جس میں مسلمانوںکے علیحدہ ووٹ ڈالنے کے حق کو مسترد کیا گیا تھا۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح ؒکے چودہ نکات کی حمایت کی اور پھر مسلم لیگ کی بھی ڈٹ کر حمایت کی۔ انہوں نے گاندھی کی مخالفت کی اور اپنے مسلمان ساتھیوں مولانا آزاد‘ حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری سے اختلاف کیا جنہوں نے گاندھی کی حمایت جاری رکھی۔ اس کے علاوہ یہ حضرات کانگرس کی بھی حمایت کرتے رہے۔1921ء میں مولانا محمد علی جوہر کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی اور انہیں کراچی سنٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے اور بھی قیدوبند کی سزائیں بھگتیں۔ جیل میں مسلسل رہنے سے ان کی صحت جواب دینے لگی۔ وہ بہت کمزور ہو گئے۔ وہ اپنی خراب صحت کے باوجود 1930ء میں لندن میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے آرزومند تھے۔ انہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی جس کے چیئرمین سر آغا خان تھے۔کہا جاتا ہے کہ مولانا جوہر نے برطانوی حکومت سے کہا تھا کہ وہ واپس ہندوستان نہیں جائیں گے جب تک ان کا ملک آزاد نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ غیر ملکی سرزمین پر مرجانا پسند کریں گے۔ اگر آپ ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز نہیں کرتے تو پھر مجھے آپ کو یہاں ایک قبر دینا پڑے گی۔ مولانا محمد علی جوہر 4جنوری 1931ء کو لندن میں انتقال کر گئے اور انہیں یروشلم میں دفن کر دیا گیا۔ ایسا ان کے رشتے داروں‘ دوستوں اور مداحین کے اصرار پر کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد ہندوستان میں کئی جگہوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا جن میںکئی ہال اورہوسٹل بھی شامل ہیں۔ جنوبی ممبئی میں ایک سڑک کا نام مولانا محمد علی روڈ ہے۔مولانا محمد علی جوہر بڑے باکمال شاعر تھے۔ کربلا کے حوالے سے ان کا یہ شعر آج بھی ز ندہ ہے۔قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہےاسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعدتحریک خلافت مولانا جوہر کی شناخت بن گئی تھی۔ اس حوالے سے ان کی والدہ کا کردار بھی یادگار تھا۔ جب بھی مولانا جوہر کا ذکر ہوتا ہے‘ تحریک خلافت کا تذکرہ لازمی طور پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے یہ شعر لبوں سے ادا ہوتا ہے۔بولیں اماں محمد علی کیجان بیٹا خلافت پہ دے دومولانا محمد علی جوہر جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ وہ ایک زبردست شخصیت کے مالک تھے اور تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔