مولوی عبدالحق کی تصانیف
اسپیشل فیچر
مولوی عبدالحق 1888ء میں علی گڑھ آئے۔ علی گڑھ اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان نوجوانوں کا مرکز نگاہ و قلب تھا۔ برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلمان طلبا علی گڑھ میں داخلہ لینا اپنی شان اور عزت تصور کرتے تھے۔ یونین سازی، کھیل کود اور مختلف انجمنیں علی گڑھ کی جان تھیں مولوی عبدالحق نے بھی علی گڑھ کے ماحول میں اپنے لئے ادبی میدان چن لیا مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:’’ میں کالج کا ایک مٹھا طالب علم تھا۔ نہ کبھی کھیلوں میں شریک ہوا نہ یونین میں حصہ لیا اور نہ انتخاب پریذیڈنٹ و سیکرٹری کے ہنگاموں میں شامل ہوا۔ کالج میں کئی انجمنیں تھیں، میں نے نہ ان میں شرکت کی البتہ ’’ اخوان الصفا‘‘ میں جس کے بانی پروفیسر آرنلڈ تھے دو ایک مضمون پڑھے۔ ایک مضمون میں نے سینٹ پال پڑھا اس دن سے طالب علم مجھے سینٹ پال کہنے لگے۔‘‘علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں مولوی عبدالحق کو مضمون نویسی کے مقابلے میں ایک مضمون پر لارڈ ڈینس ڈاؤن تمغہ ملا۔ گو یہ سب کچھ طالب علمانہ سرگرمیاں اور شوق تھے لیکن سر سید احمد خان نے انہیں بھانپ لیا اور ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ میں ان سے کام لینا شروع کیا۔ سرسید احمد خان ی نظر کرم، حالی کا قرب اور شبلی کی شاگردی نے اس جوہر کو کندن بنا دیا اور علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں قلم سے جو رشتہ جوڑا وہ بستر مرگ تک قائم رہا اور لکھنا پڑھنا ہی مولوی عبدالحق کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنے ابتدائی مضامین کے سلسلے میں اپنے ایک خط مورخہ21ستمبر1951ء میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کو تحریر کیا:’’ میرے تین مضمون مجلہ عثمانیہ میں چھپے تھے ایک ’’ ایہام‘‘ اور دوسرا ’’ چندہ‘‘۔ ’’ چندہ‘‘ تو کچھ لوگوں نے الگ بھی چھاپ دیا لیکن ’’ ایہام‘‘ مجلہ عثمانیہ سے مل سکتا ہے تیسرا’’ قدیم اردو میں قرآن مجید کے ترجمے‘‘ ’’ اردو‘‘ میں بھی چھپا تھا۔ ایک اور مضمون’’انسانیت اور درندگی‘‘ مولوی ظفر علی خان کے رسالے میں چھپا تھا، جو کسی زمانے میں انہوں نے الہٰ آباد سے نکالا تھا یہ مضمون نصاب کی کتابوں میں بہت نقل ہوا ہے۔ ایسے ہی مضامین قدیم علی گڑھ میگزین وغیرہ میں ہوں گے مگر وہ قابل ذکر نہیں ’’ دکن ریویو‘‘ (ظفر علی خان) میں بھی کچھ مضمون لکھے تھے عالم اسلامی پر ایک مسلسل مضمون تھا جو کم و بیش300صفحوں پر ختم ہوا مگر اس قابل نہیں کہ مجموعہ میں شامل کیا جائے ، زمانہ بہت بدل گیا ہے۔‘‘مولوی عبدالحق کا باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1905ء میں مولانا ظفر علی خان کی کتاب’’ جنگ روس و جاپان‘‘ کے مقدمہ سے شروع ہوا اور اس کی آخری کڑی ’’ قاموس الکتب‘‘ کا مقدمہ ہے جو انہوں نے بستر مرگ پر 22جون 1961ء کو جناح ہسپتال کے کمرہ نمبرتیرہ میں مکمل کیا۔مولوی عبدالحق کی لوح و قلم کی اس طویل رفاقت نے اردو ادب کو انمول خزانوں سے بھر دیا۔مولوی عبدالحق صاحب کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا دامن بہت وسیع ہے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ان میں اردو کی نشوونما میں صوفیا کرام کا حصہ، مرحوم دلی کالج، سرسید احمد خان (حالات و افکار) افکار حالی، نصرتی ملک الشعرا بیجاپور، سر آغاز خان کی اردو نوازی، اردو زبان میں اصطلاحات کا مسئلہ، مرہٹی زبان پر فارسی کا اثر، انتخاب کلام میر، چند ہم عصر، قواعد اردو اور اردو صرف و نحو جیسی کتب شامل ہیں جب کہ تالیفی سرمایہ میں دی اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری، اسٹوڈنٹس ڈکشنری، جیسی لغات ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی قدیم کتب کی تدوین و ترتیب ہے جو گوشہ گمنامی میں تھیں۔ ان پر معلومات افزا مقدمات تحریر کئے جو اپنی جگہ خود تحقیقی و تخلیقی اور تصنیفی حیثیت رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کتب کے دیباچے و تعارف مولوی عبدالحق کے زور قلم کا نتیجہ ہیں انجمن ترقی اردو کی رو دادیں، اردو کی ترویج کی خاطر برصغیر کے گوشے گوشے اور کونے کونے میں دئیے گئے خطبات اور ہزاروں اپنوں اور غیروں کو لکھے گئے مکاتیب، یہ سب کچھ مولوی عبدالحق کا تصنیفی و تالیفی سرمایہ ہے، جس کی بدولت اردو زبان و ادب کا دامن وسیع ہوا۔مولوی عبدالحق کے تصنیفی و تالیفی سرمایہ کا ایک کثیر حصہ ان کی زندگی میں ہی منظر شہود پر آ چکا تھا لیکن ان کی بعض کاوشیں اور بالخصوص ان کے بکھرے ہوئے خطوط ان کے انتقال کے بعد مرتب ہو کر طباعت کے زیور سے آراستہ ہوئے اور اب بھی ان کے بہت سے مضامین اور خطوط غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہوں گے ۔1930ء کے سیلاب میں شہر حصار (دکن) کی ندی میں کچھ سامان بہتا ہوا آیا اس میں مولوی غلام محمد مددگار کیبنٹ کونسل دولت عثمانیہ کو ایک تذکرہ شعرا ہاتھ لگا۔ انہوں نے اسے عبداللہ خان کو دیا، عبداللہ خاں نے وہ تذکرہ لاہور سے طبع کرایا اور حیدر آباد دکن سے فروخت کیا۔یہ تذکرہ مشہور مستشرق جان گل کرسٹ کی فرمائش پر میرزا علی لطف نے علی ابراہیم خاں کے فارسی تذکرہ شعرا ’’ گلزار ابراہیم‘‘ سے انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے تین سو بیس شعرا میں صرف اڑسٹھ شعرا کا حال فارسی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس کا مقدمہ تحریر کیا۔(کتاب بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق سے اقتباس)٭…٭…٭