طب کا آغاز
اسپیشل فیچر
ہر دور میں باکمال اطبا و حکما ہوئے ہیں۔ جب زمانے کی ضروریات بڑھتی گئیں اور عقل انسانی روز بروز ترقی کرتی گئی تو معاملات زندگی میں ارتقا ہونے لگا۔ اس طرح طب نے بھی عظیم الشان ترقی کے مدارج طے کئے۔ تاریخ طب اسی ارتقائی تسلسل کا نام ہے۔ مختلف ادوار اور ممالک میں مختلف اقوام کے طبی ارتقا کی تاریخ مختصر پیرائے میں درج ذیل ہے۔ طب بابلی: تاریخی شواہد کے پتہ چلتا ہے کہ بابل اور نینوا میں طب کی ابتدا پانچ ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے ہوئی۔ مگر وہاں بھی شروع میں مرض کی پیدائش کا سبب بھوت پریت یا دیوتاؤں کے قوانین کی خلاف ورزی کو گردانا جاتا، جس کے سبب دیوتا ناراض ہو کر انسان کو بیماری کا شکار کر دیتا۔ ماہرین آثار قدیمہ کو خشی کتبے اور مخطوطات ملے۔ ان میں مختلف امراض کے نسخہ جات کے ساتھ وہ جادو اور منتر بھی درج ہیں جو مرض کے بھوت کو دفع کرنے کے لیے واضع کیے گئے تھے۔ جھاڑ پھونک کے طریق علاج کے ساتھ مریض کو کسی چوراہے میں لٹا دیا جاتا تھا۔ پھر راہ گیر سے مریض کی کیفیت بیان کی جاتی تھی۔ اگر کوئی اس مرض کے بارے میں نسخہ جانتا تو وہ بتا دیتا۔ اس طرح جو مؤثر دوائیں اور علاج ہوتا تو اس کو چاندی اور تانبے کی تختیوں پر کندہ کر کے دیوتا کے گلے میں ڈال دیتے۔ اس زمانے میں طبیب صرف ایک ہی مرض کا علاج کرتا۔ پھر بتدریج ترقی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ مختلف شہروں میں طبی درس گاہیں اور شفاخانے قائم ہوتے گئے۔ لندن کے عجائب گھر میں جو خشی کتاب نامکمل حالت میں موجود ہے وہ ایک قدیم اور مستند کتاب سے نقل ہے ایک طبی مدرسے کے اساتذہ نے مرتب کیا۔ اس میں اکثر طویل نسخہ جات اور ایک ایک مرض کے کئی کئی علاج تحریر ہیں۔ نسخوں میں مرہموں، طلاؤں اور حقنوں کا ذکر ہے۔ اس زمانے میں چین اور ہندوستان میں بھی بابلی طب کے اثرات پہنچے۔ بابل کی تباہی کے بعد تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ طب کی ترقی کا مرکز مصر بنا اور پھر اس کے بعد طب کے تین مختلف مراکز بن گئے۔ چین، مصر اور ہندوستان اور اپنے اپنے مقام پر الگ الگ ارتقائی مراحل طے کرنے لگے۔ مصری طب نے اپنے اصلی مرکز کے قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ ترقی کی۔ طب مصری: طب کا قدیم ترین اور ابتدائی سرچشمہ مصر ہے جہاں اس کی بنیاد توہم پرستی اور جادوگری پر تھی۔ صدیوں پرانے مصری اہرام، مقبرے اور کھنڈرات کھودنے سے جو کتبات، تحریریں، مخطوطات اور فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں برآمد ہوئیں ان سے قدیم مصریوں کے تمدن و معاشرت اور پراسرار علوم پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ قدیم مصری کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک قدیم مصری بادشاہ آتھوسس نے جس کا زمانہ حیات حضرت عیسیٰؑ سے چھ ہزار سال قبل ہے، علم طب پر ایک کتاب لکھی تھی۔ لیکن اس تحریر سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ اس زمانے میں مصر میں طب محض ایک علم تسخیر و جادوگری تھا۔ قدیم مصریوں کا عقیدہ تھا کہ مرض اور موت قدرتی اور لاعلاج ہیں وہ اسے مافوق القدرت قوتوں کی کارستانی سمجھتے تھے اور جنتر منتر سے ان کا علاج کرتے تھے۔ اگرچہ مصر میں علم طب کی ابتدا باطل پرستی سے شروع ہوئی لیکن آہستہ آہستہ ترقی ہوتی چلی گئی۔ اوہام پرستی کے لیے جہاں انہوں نے مختلف دیوتا بنا رکھے تھے وہاں طب کا بھی ایک دیوتا معین کر رکھا تھا۔ مصری اس بت کی پرستش کیا کرتے تھے۔ یمن میں اس دیوتا کا سب سے بڑا مندر تھا۔ اس مندر کے پجاری مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے۔ علاج جنتر منتر سے کیا جاتا اور بعض کا علاج جڑی بوٹیوں سے بھی کرتے تھے۔ تاہم آہستہ آہستہ علم طب ترقی کرنے لگا۔ نامور اطبا نے اس کو مدون کیا۔ ہیروڈوٹس یونانی مورخ و سیاح نے حضرت عیسیٰؑ سے چار سو سال قبل ایشیائے کوچک ایران، شام اور مصر کا بڑا لمبا سفر کیا۔ وہ مصریوں کے نظام طب کی بڑی تعریف کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے مصر میں سینکڑوں طبیب دیکھے جن میں سے بعض خاص خاص امراض کے علاج میں ممتاز تھے۔ چینی طب: چینی طبابت بھی روایتوں اور داستانوں سے شروع ہوئی ہے۔ اہل چین کے خیال میں ادویہ کے استعمال کو فروغ دینے والا پہلا شخص شہنشاہ ہوانگ ٹی تھا جس کا زمانہ ساڑھے تین ہزار قبل مسیح سے بھی زائد تھا۔ اس سے دیگر اشخاص نے اس علم کو حاصل کیا، اس علم کو ترقی دی اور خاص خاص قواعد تشخیص اور اصول اختراع کیے۔ قدیم چینی اطبا نبض شناسی اور تشخیص امراض میں واقفیت رکھتے تھے۔ لیکن تب علم جراحی سے ناواقف تھے۔ البتہ علم ادویہ سے ان کو خاص واقفیت تھی۔ چنانچہ علاوہ نباتیاتی ادویہ کے وہ حیوانی و جمادی ادویہ کا بھی استعمال کرتے تھے۔ مگر طب کو بحیثیت مجموعی چین میں کوئی خاص ترقی نہ تھی۔ جبکہ آج چینی طب انتہائی عروج پر ہے۔ چینی طب کے مایہ ناز طریقہ علاج ایکو پنکچر یعنی سوزن کاری نے دنیا کو محو حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ اس طریقہ علاج سے انسانی جسم میں سوئیاں چبھو کر مختلف امراض کا علاج کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم کو بے حس کرکے بغیر نشہ کے آپریشن کر لیتے ہیں۔ طب یونانی: یونان میں بھی طب کی ابتدا ویسے ہی ہوئی جیسے مصر میں ہوئی۔ چنانچہ قدیم یونانیوں میں شفا کا دیوتا واسقلی بیوس تھا۔ منادر میں اس دیوتا کے مجسموں کی پوجا کی جاتی تھی۔ ان منادر کے پجاری مریضوں کا علاج اس طرح کیا کرتے تھے کہ مندر کے بڑے کمرے میں مریض کو سلا دیا جاتا تھا اور اس حالت میں وہ خود دیوتا سے اپنے دکھ درد کا حال بیان کر کے اپنے لیے دوا تجویر کرا لیتا تھا۔ مریضوں کو علاج کے متعلق جو خواب آتے تھے وہ ان کے نزدیک نہایت پیچیدہ ہوتے تھے جن کی تعبیر صرف مندر کے پجاریوں کو کرنے کا اہل سمجھا جاتا تھا اور وہ علاج معالجہ کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ جب مریض تندرست ہو جاتا تو وہ اپنے مریض کا حال قیمتی تختی پر لکھ کر اسے مندر میں رکھ دیتا تھا اور دیوتا کی نذر نیاز چڑھا کر رخصت ہو جاتا تھا۔ اس طرح پجاریوں کو مختلف امراض کی کیفیت اور علاج کا طریقہ معلوم ہوتا رہا اور بعد میں پجاریوں نے باقاعدہ مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔ یونان میں سب سے پہلے اسقلی بیوس نے باضابطہ علاج شروع کیا اور عوام میں اس کے سحرانگیز معالجات کی بڑی شہرت ہوئی اور اہل یونان اس کو موجد طب اور شفا کا دیوتا تسلیم کرنے لگے۔ اسقلی بیوس کے بعد فیثاغورث نے علم طب کو یونان میں رواج دیا۔ لیکن اس کی باقاعدہ تدوین بقراط کے زمانے میں ہوئی۔ اس نے دیگر علوم کی طرح طب کو بھی یکجا مدون کیا۔ اس لیے تدوین کا سہرا بقراط کے سر ہے۔ اخلاط اربعہ کا نظریہ سب سے پہلے اسی نے قلم بند کیا۔ جسم پر آب و ہوا کے اثرات اور تناسب اخلاط کے اثرات کو بھی اس نے تفصیل سے واضح کیا۔ اعضائے بدن، امراض بدن، جراحیات، معالجات، فصد اور حفظ صحت پر اس نے مختلف کتابیں لکھیں۔ بقراط کے بعد مختلف طبیبوں نے طب میں اضافے کئے۔ ارسطاطاپس نے طب کے اصول کلی کو منضبط کیا۔ دیسقوریدوس نے علم الادویہ کو ترتیب دیا اور جالینوس نے تشریح و مناضع الاعضا کا اضافہ کیا۔ جالینوس نے طب یونانی کو ایک مکمل علم کی شکل میں ترتیب دیا۔ دیگر قدیم طب میں طب ہندی، طب ایرانی اور طب رومی شامل ہیں۔۔۔۔