اقبالؒ بطور شاعر
اسپیشل فیچر
محمد اقبالؒ کو فطرت نے شاعر پیدا کیا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں: ’الشعرا تلا میذ الرحمن، شاعری و ہب ہے، اکتساب نہیں ہے۔ فطرت نے محمد اقبالؒ سے خود ہی شعر کہلوایا۔ بچپن ہی سے کلام موزوں زبان سے نکل رہا تھا۔ رفتہ رفتہ کلام موزوں شعرکے سانچے میں ڈھل گیا۔ بچپن ہی میں بازار سے منظوم قصے خرید لاتے۔ آواز نہایت سریلی تھی لحن بڑا دلکش قصے نشید کرتے۔ خود محفوظ ہوتے سننے والوں کو محظوظ کرتے۔یوں موسیقی سے شغف ہوتا گیا۔ شعر کہنے لگے۔ شروع شروع میں جو کچھ کہا دوستوں تک محدود رکھتے ہوں گے۔ ابھی اسکول ہی میں تھے کہ میر حسن سے شعر گوئی کا ذکر آ گیا۔ انھوں نے خوب خوب ہمت بڑھائی۔ شعر کہنے کی تاکید کی۔ حالانکہ آغاز سخن تھا۔ لیکن میر حسن نے جس طرح یہ اندازہ کر لیا تھا کہ یہ بچہ مسجد میں نہیں مدرسے میں پڑھنے کے لیے پیدا ہوا ہے بعینہ یہ بھی کہ ایک روز اس کی شاعری کا غلغلہ چار دانگ عالم میں پھیل جائے گا۔ میر حسن نے گویا ان کی طبع موزوں، ان کی شاعری کے حکیمانہ رنگ کو ان کے ابتدائی اشعارہی میں دیکھ لیا تھا حالانکہ ان اشعار میں کوئی خاص بات نہیں تھی لیکن میر حسن کی نگاہ جوہر شناس تھی۔ انھوں نے گویا اس شاعری کی ابتدا ہی میں اس کی انتہا کو دیکھ لیا۔محمد اقبالؒ کے ایک ہم سبق کو بھی شاعر ی کا شوق چرایا۔ محمد اقبالؒ شعر کہتے میر حسن اصلاح دیتے۔ چنانچہ اسکول ہی میں محمد اقبالؒ نے ان کی موجودگی میں ایک نظم پڑھی۔نو عمری ہی میں ان کی شاعری کا چرچا عام ہو گیا۔ سیالکوٹ میں ایک بزم مشاعرہ قائم تھی۔ اس میں کلام سناتے۔ مقامی شعرا بالخصوص میراں بخش جلوہ سے کہ محض تک بند تھے نوک جھونک رہتی۔ میر حسن کا ذوق شعر نہایت بلند تھا۔ ان سے شعر و شاعری کی نزاکتوں ،عروض اور قوافی کی خوبیوں ، کلام کے محاسن، ان کے معائب ، غرض کہ ہر اس بات کا سبق سیکھا جس کا تعلق اس فن کے لوازم سے ہے۔ عبدالرحمن شاطر مدراسی کو لکھتے ہیں۔ ’اعجاز عشق‘ حضرت مولوی میر حسن پروفیسر عربی ، اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے نام ارسال کیجیے۔ یہ بڑے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔ میں نے انھیں سے اکتساب فیض کیا ہے۔ دراصل محمد اقبالؒ کے ذوق و سخن کی تربیت میر حسن ہی کی توجہ سے ہوئی۔ میر حسن کا خیال تھا کہ تقاضائے وقت،علی ہذا تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ شعر و شاعری میں محمد اقبالؒ کا رشتہ تلمذ کسی استاد سے قائم ہو جائے۔ نگاہ انتخاب بجا طور پر فصیح الملک بہادر داغ دہلوی پر پڑی کہ وہی اس زمانے میں شاعری کے مسلم الثبوت استاد تھے اور انھیں کی زبان سند تسلیم کی جاتی تھی۔ محمد اقبالؒ نے ان سے اصلاح لینا شروع کی۔’’ لیکن یہ سلسلہ تلمذ دیر تک قائم نہ رہا۔ داغ نے بہت جلد کہہ دیا کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔‘‘ البتہ اس کی یاد بقول شیخ عبدالقادر دونوں طرف باقی رہ گئی۔ محمد اقبالؒ نے داغ ہی کی زندگی میں قبول عام کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ داغ اقبالؒ پر فخر کرتے۔ ’’مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے‘‘۔ محمد اقبالؒ کے دل میں بھی داغ کی بڑی قدر تھی۔ ان کی شاگردی پر ناز کرتے اشعار میں بھی اظہار عقیدت ہوتا۔ سیالکوٹ ہی کے زمانے کی ایک غزل ہے۔جان دے کر تمھیں جینے کی دعا دیتے ہیںپھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیںگرم ہوتا ہے کبھی ہم پہ جو وہ بت اقبالحضرت داغ کے اشعار سنا دیتے ہیںایک دوسری غزل میں کہتے ہیں:جنابِ داغ کی اقبال یہ ساری کرامت ہےترے جیسے کو کر ڈالا سخن داں بھی سخنور بھی وہ موسیقی کے دلدادہ تھے اور ایک روایت ہے کہ کبھی کبھی ستار کی مشق بھی کرتے، بلکہ دعویٰ یہ ہے کہ اس ستار کی مضراب محفوظ ہے، حتیٰ کہ اس سلسلے میں کئی لطائف بھی ایجاد ہوئے۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ فقیر سید نجم الدین ستار بجاتے ہیں تو جسٹس آغا حیدر کے توسط سے فقیر صاحب سے ستا ر پر خوب خوب راگ سنتے: درباری، مالکوس، ایمن۔ اور یوں شاید ان کا آہنگ بھی سیکھ لیا ہو۔ بات یہ ہے کہ موسیقی سے انھیں بچپن ہی سے دلی لگائو تھا۔ گھر میں منظوم قصے گا کر سناتے۔ شعر و شاعری کی محفلوں میں بھی اپنا کلام خوش الحانی سے نشید کرتے، درسی کتابوں میں کہیں کہیں سر گم کے بول میں لکھے ہیں۔ ساز بڑے شوق سے سنتے۔ خود اگرچہ کوئی ساز نہیں رکھا۔ البتہ موسیقی پر اکثر ایک ماہر فن کی طرح گفتگو کرتے۔ ۔۔لاہور آئے تو گانے کی محفلیں جمنے لگیں۔ خاص خاص دوستوں کے حلقے میں خود بھی اپنا کلام ہلکے ہلکے سروں میں گا کر سناتے۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں مشہور موسیقار رفیق غزنوی سے کئی بار پیام مشرق کی غزلیں سنیں۔ سہ پہر کا وقت ہوتا رفیق غزنوی ہمارے پاس آتے۔ ہم ان کی خدمت میں پہنچتے۔ ہار مونیم ساتھ ہوتا۔ڈیڑھ دو گھنٹے محفل گرم رہتی۔ یہ ۲۶۔۱۹۲۵ء کا ذکر ہے ان کی بعض غزلوں کے گراموفون ریکارڈ بھی رفیق غزنوی ہی کی آواز میں ہیں۔ آخری علالت کے ایام میں بھی ایک شام مرحوم سجاد سرور نیازی جو خود بھی ان کی خدمت میں حضور ی کے لیے بیتاب تھے، ہمارے ساتھ جاوید منزل گئے۔ سجاد سرور کہنے لگے میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ موسیقی سے آپ کا دل بہلائوں۔ اجازت ملی تو ایک کے بعد دوسرا راگ چھیڑا۔ سجاد سرور کی میٹھی میٹھی دھنیں، ہلکا ہلکا ساز، بال جبریل کی غزلیں اور وہ شام۔ کیسی کیف پرور ساعتیں تھیں۔ سجاد سرور ایک مرتبہ دم لینے کے لیے رکے تو اشارہ ہوا فلاں موقعے پر گلے کو جو پلٹا دیا تھا ٹھیک نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کیسے؟ کہنے لگے میری آواز تو بیٹھ گئی ہے کیا بتائوں کیسے۔ محمد اقبالؒ کا ابتدائی کلام محفوظ نہیں۔ جتنا کچھ دستیاب ہوا سن کے اعتبار سے اس کی ترتیب بھی ممکن نہیں کہ ہم کہہ سکیں اس میں ۱۸۹۵ء تک سیالکوٹ کا حصہ اتنا ہے ،۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۰ء تک لاہور کا اتنا۔ لیکن دو باتیں ہیں جو واضح طور پر سامنے آ جاتی ہیں۔ایک یہ کہ آغاز سخن، یعنی ۱۸۹۵ء سے قبل کے سیالکوٹ ہی میں ان کے کلام میں پختگی آ چکی تھی اور عنوان کہہ رہے تھے کہ اس کا مستقبل عظیم ہے۔ جب ہی تو داغ نے بہت جلد کہہ دیا تھا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ پھر اسی زمانے یعنی۱۸۹۳ء میں ان کی ایک غزل رسالہ زبان دہلی میں شائع ہوئی۔٭…٭…٭