ماوردی کے نظریات
اسپیشل فیچر
مسلم فقہا (ابتدائی اسلامی تاریخ) میں سب سے نمایاں ماوردی (۱۹۹-۱۳۰۱ئ) ہے۔ اس کا مشہور رسالہ احکام السلطانیہ بویہ امرا کو عباسی خلیفہ کی یہ اہمیت جتانے کے لیے لکھا گیا تھا کہ وہ اعلیٰ اور برتر رْوحانی اور دنیاوی حاکم مجاز ہے۔ ماوردی کا کہنا یہ تھا کہ خلافت/ امامت کا قیام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے، کیونکہ اِس کا بنیادی مقصد عقیدے کا تحفظ کرنا اور وحی کے نفاذ کے ذریعے دنیا میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنا ہے۔ ماوردی کی رائے یہ ہے کہ سیکولر ریاست کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جاتی ہے جو انسانی عقل سے ماخوذ ہوتے ہیں، لہٰذا ایسی ریاست میں شہریوں کی صرف مادی ترقی ہی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خلافت کی بنیاد چونکہ قانونِ وحی پر ہوتی ہے، لہٰذا یہ عوام کی مادی اور روحانی ترقی دونوں کی ضامن ہوتی ہے۔ماوردی نے خلیفہ کا تقرر کرنے والی جماعت کو تین گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا گروپ خلافت کے امیدواروں کا ہے۔ خلافت کے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ بالغ اور اعلیٰ کردار کا مسلمان ہونے کے علاوہ قریش کے نسب سے تعلق رکھتا ہو، جسمانی اور ذہنی صحت کے لحاظ سے مضبوط و طاقتور ہو، شجاعت اور عزمِ صمیم کا مالک ہو، فنونِ حرب سے اچھی طرح واقف ہو، منصف مزاج ہو، ہر طرح کی معلومات کی خبر رکھتا ہو، مجتہد کی حیثیت سے آزادانہ فیصلے کرنے کی قابلیت رکھتا ہو۔دوسرے گروپ میں جماعت کے وہ نمایاں اور سرکردہ افراد شامل ہیں، جن کو ’’قبض و بسط‘‘ کا اختیار حاصل ہوچکا ہو اور جو خلیفہ کو منتخب کرنے کا حق رکھتے ہوں (حق رائے دہی)۔تیسرے گروپ میں عامۃ المسلمین شامل ہیں جو چند اکابر کی رائے سے منتخب ہونے والے خلیفہ سے وفاداری کا حلف اٹھائیں (بیعت)۔ماوردی کے نزدیک خلیفہ کا انتخاب جماعت کے چند سرکردہ معززین کریں یا سابق خلیفہ اپنا جانشین نامزد کرے، یہ دونوں صورتیں بالکل درست اور جائز ہیں۔ حکمران خلیفہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یا رشتہ دار کو اپنا جانشین مقرر کرسکتا ہے اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ افراد کی نامزدگی کرسکتا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ ماوردی حقیقی تاریخی صورتِ حال کو عقل کے مطابق قرار دے رہا تھا۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ خلیفہ کی تقرری کے ضمن میں سابقہ جمہوری طریقوں میں جو تبدیلیاں، آنے والے وقتوں کے حالات کی مناسبت سے پیدا ہوئیں، اْن کو عقلی جواز فراہم کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا، حکمران خلیفہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے یا رشتہ دار کو عام طور پر اپنا جانشین مقرر کیا کرتا تھا اور سرکردہ امرا، نمایاں سرکاری عہدے دار جو زیادہ تر خلیفہ کے اپنے خاص مقرر ہوتے تھے، جانشین کی تقرری کی منظوری دیتے تھے۔ نامزدگی کے بعد اس منظوری کا مطلب ہوتا تھا، آنے والے خلیفہ کا انتخاب۔ چونکہ خلافت بعدازاں موروثی/ خاندانی ملوکیت میں بدل چکی تھی، لہٰذا یہ افسانہ تراشا گیا کہ خلیفہ منصبِ خلافت پر خلفائے راشدین کے طرزِ عمل، طرزِ نامزدگی اور طرزِ انتخاب کے عین مطابق متمکن ہے۔ماوردی نے ہر ایک صورت میں یہ مثالیں بطور نظیر استعمال کی ہیں، تاکہ خاندان عباسیہ میں خلافت کا منصب موروثی/ خاندانی ملوکیت میں رکھنے کے لیے قانونی جواز فراہم کیا جاسکے۔ بہرحال ماوردی ان کی ملازمت میں تھا۔ ماوردی نے خلیفہ کے فرائضِ منصبی بھی گنوائے ہیں کہ: اسے دینِ اسلام کا تحفظ کرنا چاہیے۔ کفر و الحاد کے پھیلاؤ کو روکنا چاہیے۔ مجتہد کی حیثیت سے اسلامی قانون کی تشریح و تنفیذ کرنی چاہیے۔ اسلامی ریاست کی جغرافیائی حدود کے دفاع کی خاطر سرحدوں پر مسلح فوجیں مامور کرنی چاہئیں۔ اسلام کی اشاعت کے مقصد کے تحت یا تو ارد گرد کے ممالک کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینی چاہیے یا ان کے خلاف جنگ کی جائے، تاوقتیکہ وہ خود کو مفتوح کی حیثیت سے قبول نہ کرلیں۔ اسے عدل و انصاف کا نفاذ اور تحفظ کرنا چاہیے۔ اسے ایک مستحکم مالیاتی نظام نافذ کرنا چاہیے۔ اسے صرف قابل وزرا، امرا، عاملین اور دیگر سرکاری عہدہ داران کی تقرری، اور خزانے سے ان کی تنخواہیں مقرر کرنی چاہئیں، اور آخر میں یہ کہ اسے ریاست کے تمام محکموں کی نگرانی کرنی چاہیے۔ماوردی نے اسلامی ریاست کے بارے میں اپنے نظریے میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کے شعبوں کی جو تشریحات پیش کی ہیں، یہاں اختصار کے ساتھ ان کا جائزہ لیا جاتا ہے:نظری اور اصولی اعتبار سے کسی شخص کو اسلامی ریاست میں قانون سازی کا استحقاق نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں اپنے قوانین قرآن مجید میں درج کردیے ہیں۔ یہ قوانین وسیع اور ہمہ گیر اصولوں کی صورت میں ہیں، جن کی تشریح حدیث، اجماع اور قیاس کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔ قانون سازی کا ایک اور وسیع میدان بھی ہے جو اسلام کے احکام (یعنی قرآن و سنت) سے متصادم ہے، ایسے قوانین کی حد تک، مسلم حکمرانوں نے شاہی فرامین کی صورت میں، قانون سازی کی ہے اور ان کا نفاذ کیا ہے۔٭…٭…٭