برصغیر میں خطاطی کا ابتدائی دور
اسپیشل فیچر
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد اور خطاطی کی تاریخ یکساں پرانی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی خطاطی کی ابتدا مدینہ منورہ سے ہوئی اور اس کی ترویج، تعمیم قرأت اور تبلیغ و اشاعت قرآن کے مقدس اور پاکیزہ جذبہ کی بنا پر ہوئی جو ایران اور توران کے بعد مسلمانوں کے ساتھ برصغیر پاک وہند میں پہنچی تو یہاں پر بھی اس کی ابتدا و ترویج کے پیچھے یہی جذبہ کار فرما رہا۔ برصغیر میں اسلامی حکومت کا قیام محمد بن قاسم کی فتح سندھ (93ھ) سے شروع ہوا اور یہ سلسلہ بہادر شاہ ظفر آخری مغل تاجدار کی معطلی( 1857ئ) کے ساتھ منقطع ہو گیا۔ اس طویل عرصے میں اسلامی خطاطی نے عروج و زوال کے کئی ادوار دیکھے۔ اس دلچسپ داستان کو تاریخی ارتقا کی روشنی میں پڑھنے کے لیے اسے ان ادواروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا دور 93ھ تا 113ھ، دوسرا دور 413ھ تا 932ھ، تیسرا دور 923ھ تا1526ئ، چوتھا دور 1707ء تا 1857ئ،پانچواں دور 1857ء تا 1947ئ، چھٹا دور خطاطی پاکستان میں۔دور اول کا آغاز محمد بن قاسم کے فتح سندھ سے لے کر شمالی جانب سے سلطان محمود غزنوی کے فتح لاہور تک محدود ہے۔ اس دور میں اسلامی حکومت سندھ اور ملتان کے نواح تک محدود رہی۔ خط اسلامی قرآنی مخطوطات اور عماراتی کتبات تک محدود رہا۔سندھ میں اس اسلامی حکومت کا آغاز محمد بن قاسم نے فتح دیبل سے کیا جو آگے بڑھتے بڑھتے الدور، ملتان اور دیپال پور تک جا ملتا ہے۔ یہ سلسلہ قائم رہا جو یعقوب بن لیث صفار پر ختم ہوا۔ اس عرصہ کی خطاطی کے بارے میں زیادہ تفصیلات کا پتہ نہیں چلتا البتہ بھنبھور کی کھدائی سے کتبات ملے ہیں محققین نے ان کا زمانہ 259ھ اور 394ھ مقرر کیا ہے۔ یہ کتبے کسی مسجد سے متعلق ہیں۔ ان پر کندہ عبارات اس زمانے کے نہایت اعلیٰ کوفی رسم الخط کا نمونہ ہیں۔ مخطوطات کے شواہد دستیاب نہیں جن کی روشنی میں اس عرصہ کی خطاطی کے بارے میں زیادہ سائنسی انداز میں گفتگو کی جائے۔ ان حالات میں سنگی کتباب ہی پر انحصار کرتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائے اسلام ہی سے برصغیر پاک و ہند کے ایک خطہ میں خط اسلامی رواج پا گیا تھا جو تیسری صدی ہجری کے اختتام تک ایک رسمی کیفیت اختیار کر گیا تھا اور جو معیار میں باقی اسلامی دنیاکے خط کوفی کے بالکل متوازی تھا۔برصغیر میں اسلامی حکومت کا دوسرا دور سلطان محمود غزنوی کے شمال سے وارد ہونے اور فتح لاہور (413ھ) کے بعد سے شروع ہو کر بابر کی فتح ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے۔ خط نستعلیق کی ایجاد سے قبل کا یہ عہد برصغیر میں خط کوفی و نسخ کی ترمیمات تک محدود رہا۔ اس عہد میں ملکی زبان فارسی کے علاوہ عربی کا بھی رواج رہا۔ خطاطی زیادہ تر قرآنی کتابت تک محدود رہی تاہم کاغذ اور تعلیمی مدرسوں کے رواج سے یہ فن زیادہ مقبول ہوا۔ اس عہد کے نمونے مختلف مخطوطوں، عمارتی کتبوں اور سکوں وغیرہ کی عبارات کی صورت میں ملتے ہیں۔ محمود غزنوی نے لاہور کو اپنی سلطنت میں مستقل طور پر شامل کیا۔ سلطان مسعود بن سلطان محمود کے عہد کی تصنیف تاریخ بیہقی کے مطابق لاہور میں باقاعدہ دفتر دیوانی قائم کیا گیا۔ قلم و دوات اور کاغذ بھی عمدگی سے دستیاب ہونے لگا۔ جہاں آج کل حسن ابدال ہے وہاں باقاعدہ تعلیمی اسلامی مدرسے بھی اس عہد میں قائم ہوئے۔ ساروغ نامی فوجی جرنیل کو ان مدارس کا مہتمم مقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں ملک میں عربی، فارسی زبانیں عام تھیں۔ محمد دراق اس عہد کا ایک کاتب مذکور ہے۔ سلطان ابراہیم (متوفی 492ھ) بن سلطان مسعود بن سلطان محمود غزنوی خوش نویسی کی مہارت رکھتے تھے۔ ہر سال اپنے ہاتھ سے دو قرآن پاک لکھتے تھے۔ ایک مدینہ منورپ بھیجتے اور دوسرا مکہ مکرمہ۔ عوفی نے لباب الالباب میں سید الکتاب جمال الدین لاہوری کو عہد غزنوی کا ابن مقلہ کی روش کا کاتب لکھا ہے۔ عوفی نے معزالاسلام نجیب الدین ابوبکر الترمذی خطاط کا بھی ذکر کیا ہے جس کا خط بے حد لطیف تھا۔عہدغزنوی کے خطاطی کے مصدقہ نمونوں میں سلطان محمود کا ایک سکہ ہے جو اس نے فتح لاہور کے فوراً بعد لاہور میں مضروب کرایا تھا۔ یہ سکہ مقامی طور پر \"تنکہ\" کہلایا۔ اس سکہ کے ہر دو طرف عربی اور سنسکرت عبارتیں الگ الگ تحریر ہیں۔ اسی طرح اس عہد میں حضرت ابولحسن علی ہجویری المعروف داتا صاحب نے پانچویں ہجری میں شہر لاہور میں اپنی معروف تصنیف کشف المحجوب کو تحریر فرمایا جسے ابوحامد نامی کاتب نے 436ھ میں لکھا۔ مزید برآں احمد آباد (گجرات کاٹھیاوار) میں کاچ نامی مسجد میں ایک کتبہ موجود ہے جو عربی نسخ میں تحریر ہے۔ ان کے علاوہ اس عہد کے دیگر مقامات سے جو سنگی تحریریں ملی ہیں ان کے تجزیہ سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ غزنوی دور کے آخر تک (586ھ) خط کوفی اپنی ارتقائی صورت میں اور خط نسخ اپنی ابتدائی صورت میں تاریخ خطاطی کا باب مرتب کر رہے تھے۔ مزید برآں یہاں کے کاتبوں میں ابن مقلہ ابن بواب کا طرزتحریر قابل توجہ اور جاذب نظر تھا۔بعدازاںدو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اول دارالحکومت لاہور کی بجائے دہلی قرار پایا۔ دوسرے برصغیر کی اسلامی سلطنت وسط ایشیا سے لے کر ہندوستان کے مرکز دہلی تک پھیل گئی۔ غوری خاندان کی ابتدائی عمارات جو دہلی، اجمیر، بدایوں، ہانسی، حصا اور کیتھل میں موجود ہیں ان میں سے بعض پر جو کتبات موجود ہیں وہ اس عہد کی خطاطی کے بہترین نمونے ہیں اور وہ قریب قریب خط کی ہر طرز پیش کرتے ہیں۔ دہلی میں قطب مینا اور مسجد قوۃ الاسلام کے کتبات نہایت خوبصورت خط کوفی و ثلث کے نمونے ہیں۔ اس مسجد کے مشرقی دروازے کا کتبہ 592ھ خط ثلث کوفی کا عمدہ نمونہ ہے۔ مسجد کی بائیں جانب کی درمیانی بڑی کمان کا کتبہ 554ھ کی تحریر ہے جوخط کوفی تزئینی میں منقش ہے۔ التمش کے مقبرے کے کتبات اعلیٰ ترین خط کوفی کا انداز ہے۔ اسی طرح عہد کی خطاطی کے کچھ اور نمونے اس عہد کے سکوں پر بھی ملتے ہیں۔ فوائدالفوائد کے مصنف کے بقول اس عہد میں کاغذ بفراوانی میسر نہ تھا۔ اس میں ایک صاحب قاضی فخرالدین ناقلہ کا بھی ذکر ملتا ہے جو کتابیں نقل کرنے پر متعین تھا غیاث الدین بلبن کے عہد کی تاریخ \"فیروز شاہی\" میں مذکور ہے کہ جو کاتب قرآن مجید لکھ کر بادشاہ کے سامنے پیش کرتا وہ اس کو ہدیہ کرتا اور پھر یہ نسخہ ہر اس مستحق شخص کو دے دیتا جو قرآن پڑھنا جانتا یا اس کے مطالعہ کی خواہش کرتا۔ سلطان بلبن کے لڑکے خان شہید حاکم ملتان کے بارے میں تاریخ فرشتہ نے امیرخسرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ شہزادہ کے پاس تقریباً 20 ہزار اشعار پر مشتمل ایک بیاض تھی جو اعلیٰ ترین خط میں لکھی گئی تھی۔ سلطان ناصر بن محمود بن سلطان شمس الدین التمش بحیثیت کاتب قرآن مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں قرآنی خطاطی اجرت پر بھی ہوتی تھی۔ ملک قوام الدین بھی اس عہد مذکورہ کا ایک صاحب خط ہے۔ اس کی مراسلت تعجب و حیرت کا باعث بنتی۔ علاوہ ازیں عہد بلبن کے فرامین کے سرنامے پر طغرانما بادشاہ کے القابات وغیرہ بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ گویا اس عہد کے اختتام تک یہاں پر علم و آداب کا ماحول قائم ہو گیا۔