جوش ملیح آبادی : قادرالکلام اور عہد آفریں شاعر
اسپیشل فیچر
جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن خان اور تخلص جوش تھا۔وہ بااصول اور بے باک تھے۔ غزل، نظم اور مرثیہ نگاری میں انہیں کمال حاصل تھا۔ عموماًاقبالؒ کے بعد جوش نظم کے سب سے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔وہ ایک قادر الکلام اور عہد آفریں شاعر تھے۔ آپ 5دسمبر 1898ء کو ضلع ملیح آباد(یوپی) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے شعری فضا میں آنکھ کھولی۔ جوش کی شاعری تیرہ سال سے شروع ہوگئی تھی۔ بعض روایات کے مطابق انہوں نے اس سے بھی کم عمر میں شاعری شروع کی۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی، مگر بعد میں اپنے وجدان و ذوق کو رہبر بنایا۔آپ کا تعلق ملیح آبادی کے آفریدی پشتون خاندان سے تھا۔ آپ نے عربی، فارسی، اردو اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی۔ 1914ء میں سینٹ پیٹرز کالج آگرہ سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ بعدازاں عربی اور فارسی سے رشتہ نہ توڑا اور اس کی وسعت سے فیضیاب ہونے کی کوشش جاری رکھی، نیز 1918ء میں ٹیگور یونیورسٹی میں چھ ماہ بھی گزارے۔ تاہم والد کے انتقال کے بعد سینئر کیمبرج سے آگے رسمی تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ آپ کے والد بشیر احمد خان کا 1916ء میں انتقال ہوا۔ ادبی میدان میں جوش کے خاندان کی بیش بہا خدمات تھیںجو مغل دور میں یوپی جا کر آباد ہوا تھا۔ ان کے پردادا نواب فقیر محمد خان، دادا نواب محمد احمد خان، چچا امیر احمد خان اور والد بشیر احمد خان سب شاعر تھے اور شاعری کے علاوہ تراجم اور مضامین کی شکل میں ان کا کام شائع ہو چکا تھا۔ ان کے ایک قریبی رشتہ دار عبدالرزاق ملیح آبادی صحافی اور سکالر تھے اور عبدالکلام آزاد کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ خود بھی مولانا عبدالکلام آزاد کے قریب تھے۔جوش جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کے دار الترجمہ میں کافی عرصہ ملازم رہے۔ لیکن یہاں ان کا قیام ایک نظم لکھنے کی وجہ سے دیرپا نہ ہو سکا جو نظام حیدرآباد یعنی والی ریاست کے خلاف تھی۔ اس کے بعد دہلی سے اپنا رسالہ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔ اس رسالے میں انہوں نے برطانوی راج سے آزادی کے حق میں مضامین بھی لکھے۔ ان کی نظم حسینؓ اور انقلاب کے سبب انہیں شاعر انقلاب کہا جانے لگا۔ بعد ازاں وہ انگریزوں سے آزادی کے لیے مزید سرگرم ہو گئے جس کے سبب اس دورمیں اس مقصد کے لیے متحرک بعض سیاسی رہنماؤں سے ان کا قریبی تعلق پیدا ہو گیا۔ ان میںجواہر لال نہرو بھی شامل تھے جو بعدازاں انڈیا کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ 1947ء میں انگریزوں کے رخصت ہونے کے بعد حکومت ہند کے رسالہ ’’آج کل‘‘ کے مدیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ آزادی کے بعد جوش کچھ عرصہ انڈیامیں رہے لیکن پھر انہوں نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔جواہر لال نہرو نے اصرار کیا کہ وہ پاکستان نہ جائیں لیکن جوش نہ مانے۔ ان کو انڈیا میں اردو کے مستقبل اور اکثریتی ہندوؤں کے رویوںبارے خدشات تھے۔ پاکستان سکونت اختیارکرنے کے اعلان پر انڈیا میں خاصا شور و غوغا ہوا۔ انہیں کچھ ہی عرصہ قبل ملک کا سب سے بڑا خطاب پدما بھوشن ملا تھا ۔ جوش 1958ء میں پاکستان آئے، کراچی میں سکونت اختیار کی اور اردو ترقیاتی بورڈ، کراچی کے مشیر خاص مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے بعد ملازمت کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔جوش بعض اوقات وہ باتیں بھی آسانی سے کر جایا کرتے تھے جنہیں بیان کرنے میں لوگ عموماً دقت محسوس کرتے ہیں۔ ’’یادوں کی بارات‘‘ کی صورت میں ان کی داستان حیات اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کا شمار اردو کی بہترین سوانح عمریوں میں ہوتا ہے۔ اس میں ان کے بچپن اور جوانی کے حالات کے ساتھ ساتھ اس دور کی معاشرتی اقدار ، رسوم، رہن سہن، محافل اور معاشقوںکی خبر ملتی ہے۔ ان میں حس ظرافت بھی کمال کی تھی ۔ ایک مرتبہ کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔ اکثر شعرا آداب محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے۔لیکن جوش ملیح آبادی پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعہ پرداد تحسین کی بارش کئے جارہے تھے۔ گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: ’’قبلہ ! یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟‘‘’’منافقت‘‘۔۔۔! جوش نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔ ایک بارممبئی کے مشاعرے میں جوش ملیح آبادی اپنی تہلکہ مچادینے والی نظم ’’گل بدنی‘‘ سنارہے تھے ،بے پناہ داد مل رہی تھی۔ جب انہوں نے اس نظم کا ایک بہت ہی اچھا بند سنایا تو کنور مہند سنگھ بیدی سحرنے والہانہ داد دی اور کہا کہ حضرات ملاحظہ ہو ، ایک پٹھان اتنی اچھی نظم سنارہا ہے۔ اس پر جوش بولے کہ ’’حضرت یہ بھی ملاحظہ ہو کہ ایک سکھ اتنی اچھی داد دے رہا ہے۔‘‘ 22فروری 1982ء کو اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔ فیض احمد فیض کے قریبی دوست تھے۔ اگست 2012ء میں حکومت پاکستان نے جوش ملیح آبادی کو ہلال امتیاز دینے کا اعلان کیا۔ ان کے شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں: ’روح ادب‘، ’نقش و نگار‘، ’شعلہ وشبنم‘، ’فکرونشاط‘، ’جنون وحکمت‘، ’فرش وعرش‘، ’سیف وسبو‘، ’الہام وافکار‘، ’رامش ورنگ‘، ’آیات ونغمات‘، ’سرود وخروش‘ ،’سموم وصبا‘۔ جدوجہد آزادی کے دوران اردو کی انقلابی شاعری کرنے والے بہت سے شعرا تھے لیکن ان میں شاعر انقلاب صرف جوش ہی کو کہا جاتا تھا۔ ان کے اشعار آزادی کے لیے تڑپ رکھنے والے دلوں کو گرماتے تھے اور ان میں انقلابی ولولہ پیدا کرتے تھے۔ ان کے ہاں بڑی تعداد میں ایسے اشعار اور قطعے ملتے ہیں جن کا مقصد مجاہدین آزادی کے دلوں کو گرمانا تھا۔ اس حوالے سے ’’ایسٹ انڈیا کے کمپنی کے فرزندوں سے خطاب، تلاشی، مرد انقلاب کی آواز‘‘ و دیگر کو مقبولیت حاصل ہے۔ ذیل میں ان کی شہرہ آفاق نظم ’’حسینؓ اور انقلاب‘‘ کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار اے زندگی جلال شہ مشرقین دے اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسینؓ دے ٭…٭…٭