سکندر کی بیماری اور دارا سے مقابلہ
اسپیشل فیچر
فارس سے جنگ سے سکندر کی حیثیت میں بڑی تبدیلی آ گئی۔ ساحلی علاقوں میں فارسی سلطنت کے لیے سب سے اہم شہر سارڈس تھا لیکن اس کے باشندوں نے بھی فوراً اطاعت قبول کر لی۔ آس پاس کی باقی آبادیوں نے بھی یہی کیا البتہ ہیلی کارنیسس اور مائلیٹس مقابلے پر جمے رہے۔ ان پر یلغار کی گئی اور گرد و نواح کو مطیع کر لیا گیا۔ اس موقعے پر سکندر تذبذب میں پڑ گیا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ کبھی وہ اس بات کا قائل ہو جاتا کہ دارا کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے اور ایک فیصلہ کن جنگ میں سب کچھ داؤ پر لگا دینا چاہیے لیکن پھر وہ سوچتا کہ پہلے ساحلی علاقے حاصل کرنا ضروری ہیں اور اسی بہانے اس کی فوج مزید مشق بھی کر لے گی۔ اس کے بعد شہنشاہ پر حملہ کرنا مناسب ہو گا۔سکندر اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے بڑھ گئے اور سکندر ساحلی علاقے حاصل کرنے کے لیے بڑھ گیا۔وہ فاسیلس کی طرف سے داخل ہوا۔فاسیلس میں اس نے کئی روز قیام کیا۔اس کے بعد وہ پسیڈیا پہنچا اور ہر مزاحمت کو ختم کرتے ہوئے فرائجیا کا مالک بن گیا۔جب اس نے گارڈئم پر قبضہ کیا جسے قدیم بادشاہ مایڈئس کا وطن سمجھا جاتا ہے تو اس نے وہ مشہور رَتھ دیکھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ جو شخص اس رسی کی گرہ کھولے گا جس سے رتھ بندھا ہوا ہے وہ پوری دنیا کا بادشاہ بن جائے گا۔ زیادہ تر مورخین یہی کہتے ہیں کہ یہ گرہ اس مہارت سے باندھی گئی تھی اور اس کے بل کچھ اس طرح ایک دوسرے کے اوپر لائے گئے تھے کہ اس کے سرے چھُپ گئے تھے۔ سکندر اسے کھولنے کی کوئی تدبیر نہ سوچ سکا تو اس نے تلوار سے گرہ کو کاٹ دیا اور گرہ خودبخود کھل گئی۔ لیکن ارسٹوبولس کے بیان کے مطابق سکندر نے وہ میخ نکال دی جس کے گرد گرہ باندھی گئی تھی اور یوں یہ مسئلہ حل کیا۔ اس کے بعد سکندر نے شمال کی جانب پیش قدمی کی اور کیپاڈوشیا اور پافلاگونیا کے لوگوں نے بخوشی اس کی اطاعت قبول کر لی۔ سکندر نے یہ بھی سنا کہ میمنن مر گیا ہے۔ اس جرنیل کے ذمے شہنشاہ فارس دارا نے ایشیائے کوچک کی حفاظت کا کام لگایا تھا اور اگر یہ زندہ رہتا تو سکندر کی پیش قدمی کی راہ میں روڑے اٹکاتا اور اس کے لیے مشکلات کھڑی کرتا۔ اسی کی موت نے فارس کے اندرونی حصوں میں پیش قدمی کے لئے سکندر کا ارادہ اور بھی اٹل کر دیا۔اس وقت تک دارا بھی سوسا کی طرف سے ساحل کے ساتھ ساتھ پیش قدمی شروع کر چکا تھا۔ اسے اپنی عسکری قوت پر بہت بھروسہ تھا کیونکہ وہ چھ لاکھ سپاہیوں کی قیادت کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ ایک خواب نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی تھی جس کی تعبیر مجوسیوں نے اسے خوش کرنے کی خاطر غلط بتائی تھی۔ دارا نے خواب دیکھا تھا کہ مقدونوی فوج شعلوں میں گھری ہے ، سکندر نوکروں کی طرح دارا کی خدمت کر رہا ہے اور ویسا لبادہ پہن رکھا ہے جیسا دارا اس وقت پہنتا تھا جب وہ درباری تھا۔ پھر وہ بیلوس کے مندر میں جا کر غائب ہو گیا ہے۔ لیکن اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ مقدونوی شاندار کارنامے انجام دیں گے اور سکندر پورے فارس کا مالک بن جائے گا جس طرح دارا بنا تھا جب وہ محض ایک درباری سے بادشاہ کے مرتبے تک پہنچا تھا۔ اور یہ کہ سکندر جلد ہی مر جائے گا لیکن اپنی شہرت ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا۔سکندر نے سلیشیا میں کئی دن لگا دئیے۔ اس بات سے بھی دارا کا حوصلہ بڑھ گیا کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ سکندر اس سے ڈر کر یہ التوا کر رہا ہے لیکن دراصل اس کی وجہ بیماری تھی جو بعض لوگوں کے بیان کے مطابق تھکن کے باعث ہوئی تھی جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ دریائے سڈنس میں غسل تھا۔بہرحال کوئی طبیب اس کے علاج پر تیار نہ ہوا کیونکہ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ مرض اتنی شدّت اختیار کر چکا ہے کہ دوا کوئی اثر نہیں کر سکے گی اور سکندر مر گیا تو الزام اس کے معالج پر آئے گا۔ البتہ ایک طبیب جو آرکینیا کا رہنے والا تھا اور جس کا نام فیلقوس تھا سکندر کے علاج پر تیار ہو گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کا بادشاہ اب صحت کی تمام امید کھوبیٹھا ہے تو اس نے اس بات کو موردِ ملامت خیال کیا کہ اس کے علاج کے لیے اپنا تمام نہ آزمائے اور اپنی جان داؤ پر لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ اس نے ایک دوا تیار کی اور سکندر سے کہا کہ اگر وہ اپنی مہم میں پھر پہلی سی سرعت چاہتا ہے تو کوئی وسوسہ اپنے دل میں لائے بغیر دوا پی لے۔اسی دوران سکندر کو پارمینیو کا پیغام موصول ہوا جس میں پارمینیو نے اسے خبردار کیا تھا کہ اس طبیب سے ہوشیار رہے اور اس کی دوا استعمال نہ کرے کیونکہ شبہ ہے کہ دارا نے اس شخص کو رشوت دے کر سکندر کے قتل پر مامور کیا ہے۔ سکندر نے خط پڑھ کر بغیر اپنے کسی دوست کو دکھائے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔ جب مقررہ وقت پر فیلقوس اْس کے ساتھیوں کے ساتھ دوا کا پیالہ لے کر اس کے پاس آیا تو سکندر نے اسے خط دے دیا اور خوش دلی سے اس کی دوا پی لی۔ یہ ایک حیران کن منظر تھا بلکہ کسی ڈرامے کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ طبیب خط پڑھ رہا تھا اور مریض اس کی دوا پی رہا تھا اور پھر دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے اگرچہ ان کے چہرے کے تاثرات میں بڑا فرق تھا۔ بادشاہ کی دوستانہ مسکراہٹ اس کے دوست فیلقوس کے متعلق اس کے جذبات ظاہر کر رہی تھی اور فیلقوس حیران پریشان کھڑا اپنے اوپر عائد کردہ الزام پر غور کر رہا تھا۔ پہلے پہل اس دوا نے سکندر کو بے حال کر دیا اور اس کی قوتِ گویائی بھی کچھ دیر کے لیے ختم ہو گئی۔ اس پر غشی طاری ہو گئی اور زندگی کے آثار اس میں مفقود ہوتے چلے گئے۔ فیلقوس جلد ہی اسے ہوش میں لے آیا اور جب اس کی حالت بہتر ہوئی تو وہ مقدونویوں کے سامنے نمودار ہوا کیونکہ اپنے بادشاہ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر ان کا اطمینان نہ ہوتا تھا۔اس وقت دارا کی فوج میں ایک شخص تھا جس کا نام امنٹاس تھا اور یہ مقدونیہ سے دارا کے پاس پناہ لینے آیا تھا۔ اسے سکندر کی فطرت سے خاصی واقفیت حاصل تھی۔ جب امنٹاس کو معلوم ہوا کہ دارا سکندر پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے اور پہاڑی علاقوں میں اس سے مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس نے دارا سے درخواست کی کہ کھلے میدان میں ہی رہے تاکہ جنگ میں فارسیوں کو اپنی بڑی تعداد سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ دارا نے کہا کہ اسے یہ کھٹکا ہے کہ کہیں سکندر واپس نہ بھاگ جائے۔ امنٹاس نے جواب دیا۔’’عالی قدر کو اس قسم کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ سکندر آپ کے مقابلے پر خود ہی آگے بڑھتا رہے گا بلکہ اب تک وہ روانہ بھی ہو چکا ہو گا۔‘‘دارا نے امنٹاس کی تجویز پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ کوچ کیا اور سلیشیا کے صوبے میں داخل ہو گیا۔ سکندر اس کی تلاش میں شام کے علاقے میں پہنچ گیا۔ رات کو وہ ایک دوسرے سے بے خبری کے عالم میں گزر گئے اور پھر واپس پلٹے۔ سکندر اپنی خوش قسمتی پر نازاں جلدی سے اپنے دشمن کی طرف بڑھا تاکہ اسے تنگ گھاٹیوں میں پکڑ سکے۔ دارا بھی اب دوبارہ میدانوں میں پہنچ جانے کو مضطرب تھا۔ ا ب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا جو اس نے ایسے علاقے میں اپنی کثیر فوج لا کر کی تھی جہاں ایک طرف سمندر تھا، دوسری طرف پہاڑ اور دریائے پائنارس بھی اس کا راستہ کاٹنے کو موجود تھا۔ اِن چیزوں نے اسے اپنی فوج کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے پر مجبور کر دیا۔ مزید برآں اْس کی سوار فوج بھی اس علاقے میں بیکار تھی۔ انہی حالات نے اس کے دشمنوں کو فائدہ پہنچایا کیونکہ وہ بہت کم تعداد میں تھے۔قسمت نے سکندر کو جنگ کے لیے بالکل موزوں جگہ دے دی تھی لیکن فتح حاصل کرنے میں زیادہ کمال اس کی اپنی صلاحیتوں کا تھا کیونکہ اگرچہ اس کے دشمن اس سے کئی گنا زیادہ تھے اس نے انہیں اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اس کی فوج کو گھیرے میں لے سکیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے اپنی فوج کے دائیں بازو کے ذریعے جس کی قیادت وہ خود کر رہا تھا دارا کی فوج کے بائیں بازو کو گھیر لیا اور خود سب سے اگلی صف میں لڑتے ہوئے دشمن کی فوج کو کارزار سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کوشش میں اسے ران پر تلوار کا زخم بھی آیا۔ چیرز کے بیان کے مطابق یہ زخم دارا نے خود لگایا تھا جس سے سکندر کی دست بدست لڑائی ہوئی۔ سکندر نے انٹیپیٹر کو خط لکھا تو اس میں زخم کا ذکر کیا لیکن یہ نہ بتایا کہ زخم اسے کس نے لگایا۔اس نے صرف اتنا لکھا کہ اسے ران میں خنجر کا زخم لگا لیکن چوٹ خطرناک نہیں تھی۔اس جنگ کا نتیجہ سکندر کے حق میں ایک شاندار فتح کی صورت میں نکلا۔ اس کے آدمیوں نے دشمن کے ایک لاکھ دس ہزار سپاہی ہلاک کئے لیکن وہ دارا کو گرفتار نہ کر سکے جو فرار ہو گیا۔ البتہ اس کا رَتھ اور کمان ان کے ہاتھ لگ گئے۔( مترجم: خرم علی شفیق)